احمق

( اَحْمَق )
{ اَح + مَق }
( عربی )

تفصیلات


حمق  اَحْمَق

عربی زبان سے مشتق ہے ثلاثی مجرد کے باب سے اسم تفضیل ہے۔ اردو میں بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٦٣٥ء کو "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔"

صفت ذاتی
جمع ندائی   : اَحْمَقو [اَح + مَقو (واؤ مجہول)]
جمع غیر ندائی   : اَحْمَقوں [اَح + مَقوں (واؤ مجہول)]
١ - جس میں بات کو سمجھنے کی صلاحیت کم ہو یا نہ ہو، بیوقوف، ناسمجھ۔ (مرد یا عورت)۔
"اگر میں اس لفظ کو ان معنوں میں استعمال کروں جن میں وہ عام طور پر استعمال نہیں ہوتا تو میں یقیناً احمق ہوں گا۔"      ( ١٩٦٣ء، اصول اخلاقیات (ترجمہ)، ٣٩ )
٢ - کلمہ زجرو توبیخ، مترادف : جاہل، الو، گدھا، پاگل، نالائق وغیرہ
 ترا ہی منہ پھوڑنے کو احمق ملا دیا تجھ میں کھوٹ ہم نے غرور تیرا ہی توڑنے کو چلائے کاغذ کے نوٹ ہم نے      ( ١٩١٠ء، جذبات نادر، ٢٢٥:٢ )
١ - اَحْمَق بنانا
چالاکی سے کسی کو اپنی نیک نیتی باور کرا کے فریب دینا اور مطلب نکالنا، گفتگو یا برتاءو سے کسی کو مسخر کر کے اپنے حق میں وہ کام کرا لینا جسے وہ عقل سے کام لینے کی صورت میں ہرگز نہ کرتا۔"اس قسم کا آدمی اپنے آپ کو خود احمق بنا رہا ہے۔"      ( ١٩٥٦ء، مناظر احسن، عبقات (ترجمہ)، ١٣ )
٢ - اَحْمق بننا
احمق بنانا سے فعل لازم تم جو پروا نہ کرو گے مطلق آپ دنیا میں بنو گے احمق