امتیازی

( اِمْتِیازی )
{ اِم + تِیا + زی }
( عربی )

تفصیلات


اِمْتِیاز  اِمْتِیازی

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم 'امتیاز' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقہ نسبت لگانے سے 'امتیازی' بنا۔ اردو میں بطور صفت اور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٨٤٥ء کو "مرقع پیشہ وراں" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر، مؤنث - واحد )
١ - مصاحب، درباری۔
"باپ میرا نظام الملک کی سرکار میں امتیازیوں میں نوکر تھا۔"      ( ١٨٤٧ء، عجائبات فرنگ، ١٢٧ )
٢ - فوقیت، برتری، ترجیح، بڑائی۔
 طفیل اس کے تو پاوے سرفرازی زیادہ ہووے حاصل امتیازی      ( ١٨٥٧ء، مثنوی مصباح المجالس، ٤٢ )
صفت نسبتی ( واحد )
١ - خصوصی، ممتاز، خاص وصف رکھنے والا، نمایاں۔
"کیا وہ یہ گوارا کر لیتے کہ اپنے مسلم کمال اور ناقابل انکار امتیازی شہرت کو اس بے تکی فرمائش پر قربان کردیں۔"      ( ١٩٣٤ء، اودھ پنچ، لکھنؤ، ١٩، ٤:٣ )
٢ - تمیز کرنے والا، پہچان رکھنے والا، صاحب امتیاز۔
"پشوری اس کا امتیازیوں کو عزیز ہے۔"      ( ١٨٤٥ء، مرقع، پیشہ وراں، ١٤١ )
٣ - باشعور، سمجھ دار، مہذب، نامی، ممتاز (جامع اللغات، 272:1)