صفت ذاتی ( واحد )
١ - (دوسروں سے) جدا، سب سے بے تعلق۔
غضب سے ترے مانگتا ہوں پناہ الگ ان سے رکھ جو گئے بھول رہ
( ١٩١١ء، کلیات اسماعیل، ١٨ )
٢ - علٰحیدہ، علاوہ، سوا، شامل کی ضد۔
"لالہ اصل کا حساب کرو سود تو اس سے الگ ہے۔"
( ١٩٢٤ء، نوراللغات، ٣٨٦:١ )
٣ - مختلف، متمایز۔
"جو ان کی نقل کرتا ہے وہ الگ پہچانا جاتا ہے۔"
( ١٩٣٣ء، فراق دہلوی، مضامین، ٦٧ )
٤ - مستقل، بلاشرکت غیرے جس میں کسی اور کا دخل نہ ہو۔
"ہم تو الگ گھر کریں گے۔"
( ١٩٦٨ء، مرآۃ العروس، ٨٢ )
٥ - کنارہ کش، لاتعلق۔
"تم تو ایک بات کہہ کر الگ ہو گئے آئی گئی میرے سر ہوئی۔"
( ١٩٢٤ء، نوراللغات، ٣٨٦:١ )
٦ - نرالا، جو کسی سے میل نہ کھائے۔
جو بات ہے ہر مذہب و ملت سے جدا ہے دیکھا تو صبا سب سے الگ تو نظر آیا
( ١٨٥٤ء، دیوان صبا، غنچۂ آرزو، ٢٧ )
٧ - مزید، مزید برآں۔
"اس کٹنی نے ہات گلا سب اینٹھا اور مہینے ڈیڑھ مہینے خدمت کروائی سو الگ۔"
( ١٩٠٨ء، صبح زندگی، ١٨ )
٨ - کنارے، محفوظ رہنے کی جگہ۔
آفتیں کرتی ہیں برپا مرے چشم و دل پر کچھ جوانی کی امنگیں ترے جوبن سے الگ
( ١٨٨٨ء، مضمون ہاے دلکش، ٤٤ )
٩ - مقرر جگہ سے منفصل، شکستہ۔
"جمنا کے پل کی دو کشتیاں الگ ہوگئی ہیں لہٰذا سو مزدوروں کو مرمت کے لیے روانہ کردو۔"
( ١٩٢٢ء، فسانۂ غدر، ١٣٨:٢ )
١٠ - تکرار کے موقع پر ایک حکم میں دو چیزوں کی شمولیت ظاہر کرنے کے لیے، مترادف: بھی، بجائے خود، یہ بھی وہ بھی۔
صیاد تاک میں ہے الگ باغباں الگ اک برق ہی کو لاگ نہیں آشیاں کے ساتھ
( ١٩٤٨ء، نوبہاراں، ١١٩ )
١١ - برطرف (ملازمت یا منصب وغیرہ سے)۔
"نوکر کھلی بھوسا چرا چرا کر بیچنے لگا تو اسے الگ کیا۔"
( ١٩٣٥ء، گؤدان، پریم چند، ٤٣٦ )
١٢ - اچھوتا
"یہ شیر برنج کا پیالہ تو الگ ہی رکھا رہا کسی نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔"
( ١٩٢٤ء، نوراللغات، ٣٨٦:١ )