ماورا

( ماوَرا )
{ ما + وَرا }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان میں اسم موصول 'ما' کے ساتھ عربی اسم صفت 'ورا' لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور اردو میں بطور صفت، حرف استثنا اور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٢٥ء میں "فغان قاری" میں مستعمل ملتا ہے۔

حرف استثنا
١ - علاوہ، بجز، سوا۔
 یہ تو کہہ رنج سفر کے ماورا پیش آیا تجھ کو کیا کیا مجرا      ( ١٨٢٨ء، مثنوی مہر و مشتری، ٦١ )
اسم نکرہ
١ - [ تصوف ]  جو کچھ ذات باری تعالٰی کے سوا ہے، ماسوائے اللہ؛ مراد؛ ماجودات، مخلوقات۔
 زوردہ نارساں تکیہ گہ بیکساں! بادشہ ماورا تم پہ کروڑوں درود      ( ١٩٠٧ء، حدائق بخشش، ١١:٢ )
صفت ذاتی
١ - جو کچھ پس پشت ہو، ادھر، پرے، باہر۔
"یہ دنیا تاریک، غیر معلوم، بے شکل، غیر ممیز اور فہم و ادراک سے ماورا تھی۔"      ( ١٩٩٠ء، بھولی بسری کہانیاں، ٢ )