جھاگ

( جھاگ )
{ جھاگ }
( پراکرت )

تفصیلات


اصلاً پراکرت زبان کا لفظ ہے اردو میں پراکرت سے ماخوذ ہے اصل معنی اور اصل حالت میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے ١٨٣١ء کو "دیوان ناسخ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر، مؤنث - واحد )
جمع غیر ندائی   : جھاگوں [جھا + گوں (و مجہول)]
١ - چھوٹے چھوٹے بلبلے جو پانی یا کسی بھی سیال میں گرمی سے یا زور سے حرکت کرنے سے یا کسی دوسرے جزو مثلاً پانی میں چونا سجی پا صابن وغیرہ کے حل ہو جانے سے سطح پر پیدا ہو جاتے ہیں، یا کسی اور سبب سے (مثلاً گائے، بھینس کے دودھ نکالنے میں)، کف، پھین (یہ انسان اور بعض دوسرے جانداروں کے منھ سے بھی غیظ و غضب میں اور بعض امراض وغیرہ کی حالت میں خارج ہوتے ہیں)۔
"ایک دغا باز اٹھا اور مستان شاہ کے منھ کی جھاگ اس کے گھٹنے میں لگا دی۔"      ( ١٩٠٠ء، خورشید بہو، ٩٢ )
٢ - کھوٹ ملاوٹ میل کچیل یا خراب حصے کے وہ اجزا جو کسی چیز کے پکانے یا تپانے پر پھین کی شکل میں اوپر جمع ہو جاتے ہیں۔
"دھاتوں کو آگ میں تپاتے ہیں اس میں بھی اسی طرح کا جھاگ یعنی کھوٹ ملا ہوتا ہے۔"      ( ١٨٩٥ء، ترجمہ قرآن مجید، نذیر، ٤٠٠ )
٣ - [ مجازا ]  کفرو نفاق، ضلالت۔
جھاگ سے کفرو نفاق مراد ہے۔"      ( ١٩٠٦ء، الکلام، ١٨٣:٢ )