منعقد

( مُنْعَقِد )
{ مُن + عَقِد }
( عربی )

تفصیلات


عقد  مُنْعَقِد

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم صفت ہے۔ اردو میں اپنے اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور صفت اور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٠٢ء کو "رسالہ کائنات جو" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - بندھنے والا، انعقاد پانے والا، مراد، مقرر، قائم برپا، جو واقع ہو باعمل میں لایا جائے۔
"پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا جلسہ تھا جو کسی ہندوستانی اور وہ بھی غیر مسلم ادیب کے لیے منعقد ہوا۔"      ( ١٩٩٤ء، قومی زبان، کراچی، اپریل، ٦٨ )
٢ - (گرہ کی شکل میں) بستہ، بندھا ہوا، مراد، منجمد۔
"جسم سے روح نے جوڑ کھایا اور منعقد ہو کر یہ کیفیتیں پیدا ہوئیں۔"      ( ١٩٠٣ء، مکاشفات آزاد، ١٧ )
٣ - [ قانون ]  جمع ہونے والا، انعقاد پذیر (اردو قانونی ڈکشنری)۔
٤ - [ طب ]  قرار پانے والا، ٹھہرنے والا۔
 بسکہ تھے وہ مرد و عورت مستعد ہو گیا فی الفور وہ نطفہ منعقد      ( ١٨٩٩ء، مثنوی، نان و نمک، ٣٦ )
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - قسم کی ایک قسم جس کے خلاف واقع ہونے پر کفارہ لازم آتا ہے۔
"اور تیسری منعقد اور وہ قسم ہے امر آئندہ پر اور اس میں اگر خلاف واقع ہو تو کفارہ لازم ہو گا۔"      ( ١٨٦٧ء، نورالہدایہ، ١٠٣:٢ )