اترانا

( اِتْرانا )
{ اِت + را + نا }
( ہندی )

تفصیلات


اِتْرا  اِتْرانا

ہندی زبان کے لفظ 'اِتْر' سے ماخوذ 'اتیر' یا 'اِترا' اردو میں بطور اسم صفت مستعمل ہیں۔ سنسکرت میں 'اَتِ + کَرْمَنْ' انہی معنوں میں مستعمل ہے۔ ممکن ہے ہندی میں سنسکرت سے آیا ہو لیکن ہیئت کے اعتبار سے 'اترا' ہندی سے زیادہ قریب معلوم ہوتا ہے۔ 'اترا' کے ساتھ 'نا' علامت مصدر لگائی گئی ہے۔ اردو میں ١٨٠٢ء کو "باغ و بہار" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - (اوچھے پن کی بنا پر) ذرا سی عزت، دولت یا خوشی میں جامے سے باہر ہو جانا، شیخی میں آنا، شیخی مارنا۔
"اپنے پاس چیز نصیب نہیں مگر دوسروں کی لے کر اترانا عام دستور ہو گیا ہے۔"      ( ١٩٠٨ء، صبح زندگی، ٤٧ )
٢ - گھمنڈ کرنا، غرور کرنا، ("پر" کے ساتھ)۔
 بت پرست اپنے نسب پر جب سے اترانے لگے ہم مسلمان زادہ کہلانے سے شرمانے لگے      ( ١٩٤١ء، چمنستان، ١٤١ )