ست[2]

( سَت[2] )
{ سَت }
( سنسکرت )

تفصیلات


اصلاً سنسکرت زبان کا لفظ ہے۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٧٠٨ء سے "داستان فتح جنگ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - زور، بل، بوتا، شکتی، طاقت۔
"مگر نہ جانے میرے ہاتھوں میں مست کیوں نہ رہا۔"      ( ١٩٦٦ء، دو ہاتھ، ٣٢ )
٢ - عرق، رس، نچوڑ۔
"ایک صاف نلی میں . اس ہرے ست کی کچھ مقدار ڈالو۔"      ( ١٩٣٨ء، عملی نباتیات، ٨٧ )
٣ - خمیر
"انسان کو مٹی کے ست سے بنایا، پھر ہم ہی نے اس کو حفاظت کی جگہ یعنی عورت کے رحم میں نطفہ بنا کر رکھا۔"      ( ١٨٩٥ء، ترجمہ قرآن مجید، نذیر احمد، ٤٩٠ )
٤ - مٹی، زمین کی خاصیت۔
"یہ ایک قسم کی مٹی ہے جو اسی مٹی کے ست اور آکسیجن جزو ہوا کے ترکیب پانے سے پھر بن جاتی ہے۔"      ( ١٨٦٥ء، رسالہ علم فلاحت، ١٢ )
٥ - جوہر، لب لباب، نچوڑ، خلاصہ، اصل مطلب۔
"جو کتاب بھی پڑھتے اس کا ست یا جوہر نکال لیتے۔"      ( ١٩٥٤ء، اکبرنامہ، ١٧٤ )
٦ - جذبہ، جوش۔
"دیکھو رسم کا ست تو مار چکا تھا محبت کا ست کام کر گیا۔"      ( ١٨٨٣ء، دربارِ اکبری، ٧٨٥ )
٧ - خیر و برکت، فراغت۔
 یہ مفلسی وہ شے ہے کہ جس گھر میں بھر گئی پھر جتنی گھر میں ست تھی اسی گھر کے در گئی      ( ١٨٣٠ء، نظیر، کلیات، ٢، ١٦:١ )
٨ - روح، جوہر حیات۔
"حق ہے کہ برہ کہ پیڑ جس کے تن کو لگے وہ سوکھ جائے اور اس کے ست سوکھ جائیں۔"      ( ١٨٠١ء، مادھونل اور کام کندلا، ٤٧ )
  • essence
  • nature;  the principle of goodness or virtue;  juice
  • sap; pith
  • essence
  • cream
  • narrow;  strength
  • energy
  • vigour
  • power
  • virtue;  spirit
  • courage
  • fortitude