سردی

( سَرْدی )
{ سَر + دی }
( فارسی )

تفصیلات


سَرْد  سَرْدی

فارسی زبان سے ماخوذ اسم صفت 'سرد' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : سَرْدِیاں [سَر + دِیاں]
جمع غیر ندائی   : سَرْدِیوں [سَر + دِیوں (و مجہول)]
١ - ٹھنڈک، خنکی، برودت۔
 دھوتا تھا دل کے داغ چمن لالہ زار کا سردی جگر کو دیتا تھا سبزہ کچھار کا      ( ١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٨٦:٢ )
٢ - جاڑے کا موسم، ٹھنڈک کی فصل۔
"شام ہی سے سردی تھی۔"      ( ١٩٧٨ء، کلیاں، ٢٥ )
٣ - زکام، نزلہ، ہوا لگ جانے کی کیفیت۔
 اگر قدرے بتانے میں ہو زردی تو یہ جانے یہ بادی سے ہے سردی      ( ١٧٩٥ء، فرسنامۂ رنگین، ١٠ )
٤ - لرزہ اور کپکپی (جو بخار کے ساتھ ہوتا ہے)۔
"بعض بخاروں میں سردی اور لرزہ تکلیف دہ طور پر شدید اور دیرپا ہوتا ہے۔"      ( ١٩٣٣ء، بخاروں کا اصول علاج، ١٣٧ )
٥ - کھلے اور صاف دل سے نہ ملنا، نرم برتاؤ، بے حسی یا بے مہری کی کیفیت۔
 سردی جو کم کروگی بڑھے گا سوا عتاب محشر تلک نہ جائے گا خورشید کا عتاب      ( ١٨٦١ء، کلیات اختر، ٢٥٠ )
٦ - [ تصوف ]  راحت طلبی۔ (ماخوذ: مصباح التعرف، 143)۔