پرکار

( پُرکار )
{ پُر + کار }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماحوذ صفت 'پر' کے ساتھ فارسی مصدر 'کردن' سے صیغہ امر 'کار' بطور لاحقہ فاعلی لگانے سے مرکب 'پرکار' اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٦١١ء کو "کلیات قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - سادہ کی ضد، جس میں بیل بوٹے اور مرصع کاری یا رنگ آمیزی ہو، رنگیں۔
 ہے اپنی سادگی شوق زلف پرخم سے کہ ہم تصور پر کار و سادہ رکھتے ہیں      ( ١٩٥٥ء، دو نیم، ١١٤ )
٢ - دانا، ہوشیار، اپنے فن میں ماہر۔
"تیری جواں سال ساحرہ چاند چہرہ پر کار شاعرہ۔"      ( ١٩٦٢ء، ہفت کشور، ٤٢٢ )
٣ - میناکار، نقش گر۔
"ایک سمت سادہ کار خوش پرکار بیٹھے انگوٹھیاں چھلے خوشنما بنا رہے تھے۔"      ( ١٨٨٢ء، طلسم ہوشربا، ٩٥٠:١ )
٤ - موٹا، جعلی، دبیز، جعلی قلم سے لکھا ہوا۔
"حرف نہایت خوش خط ہوں اور بہت پرکار قلم سے نہ لکھا جائے۔"      ( ١٨٧٠ء، خطوط سر سید، ٨٦ )
٥ - عیار، چالاک۔
 چلتا پرزا ہے لکہ لکہ پرکار شفق ہے ان کی ملکہ      ( ١٩٤٤ء، عروس فطرت، ٦٤ )
٦ - کارگر، موثر، بھرپور۔
 لوگ کہتے ہیں یہی شیر ہے زندہ اب تک زخم ہیں چند لگے پر نہیں کوئی پرکار      ( ١٩٣١ء، بہارستان، ٨١٢ )
٧ - گندہ، مضبوط، مستقل، چلائو۔ (فرہنگ آصفیہ، 517:1)