سنسکرت سے ماخوذ 'چال' کے ساتھ 'ا' لاحقہ صفت لگا کر 'چالا' بنا۔ 'چالا' کے ساتھ 'ک' بطور لاحقۂ صفت لگا کر 'چالاک' بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٤٩ء کو "خاور نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔
١ - پھرتیلا، کام کرنے میں چست (اکثر چست کے ساتھ مستعمل)، محنتی، جفکا کش، ماہر۔
"ابن بطوطہ نے اس عہد کے چالاک اور مشاق تیر اندازوں . کا ذکر کیا ہے۔"
( ١٩٥٨ء، ہندوستان کے عہد وسطٰی کی ایک جھلک، ٢:٢٨ )
٢ - تیز رفتار، زو درو۔
مرے دل کو اوہام سے پاک کر مجھے اپنے رستہ میں چالاک کر
( ١٩١١ء، کلیات اسمٰعیل، ١٥ )
٣ - اپنی فراست یا ذہانت کو دھوکے اور فریب میں صرف کرنے والا، عیار، مکار، فریبی۔
"وہ کدورت جو . ان وزیروں سے پیدا ہو گئی تھی جو اس کے ماقبل حکومت کے لیے آخر میں بہت کچھ چالاک ہو رہے تھے . دور ہو گئی۔"
( ١٨٩٣ء، بست سالہ عہد حکومت، ١٣٢ )
٤ - شوخ وشنگ۔
لیا بوسہ تو فرمایا بگڑ کر نہایت آپکو چالاک پایا
( ١٨٦٥ء، نسیم دہلوی، دیوان، ٩٣ )
٥ - ہوشیار، زیرک۔
کیسے چالاک ہیں یہ ترک کہ کرتے ہیں نگاہ سرمہ تلوار آنکھوں میں لگا جاتے ہیں
( ١٨٧٢ء، مرآۃ الغیب، ٣٠٣ )