چنڈال

( چَنْڈال )
{ چَن + ڈال }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت میں بالکل اسی طرح مستعمل ہے وہاں سے اردو زبان میں داخل ہوا اور ١٤٣٥ء میں "کدم راو پدم راو" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : چَنْڈالَن [چَن + ڈا + لَن]
جمع غیر ندائی   : چَنْڈالوں [چَن + ڈا + لوں (و مجہول)]
١ - رذیل، کمینہ، فرومایہ (ذات، حالات اور طرز زندگی وغیرہ کے اعتبار سے)۔
"چاروں ورنوں کے علاوہ پانچویں ورن کا بھی ذکر ملتا ہے جس میں نشاد، چنڈال اور پلراس شامل تھے"۔      ( ١٩٧٥ء، ہندوستانی تہذیب کا مسلمانوں پر اثر، ٦٣ )
٢ - نیچ ذات کا، پلید۔
"ہم دونوں کو چنڈال کا بھیس بنا کر چندن داس کو قتل گاہ میں لے جانا ہی پڑے گا"۔      ( ١٩٥٥ء، مدرا راکھشش (ترجمہ)، ٢٣٠ )
٣ - بدکار، مکار، دھوکا باز، ظالم۔
"ناہنجار، خلائی خوار، چنڈال، بدکار کیا بک بک کرتا ہے، بے حیا ڈوب نہیں مرتا"      ( ١٩٠١ء، عشق و عاشقی کا گنجینہ، ٦٤ )
٤ - بدنصیب، بدبخت، منحوس۔
"ناکارہ، چنڈال، بدقسمت، بدنصیب"۔      ( ١٩١٥ء، مرقع زبان و بیان دہلی، ٧ )
٥ - کنجوس، خسیس، بخیل، شوم۔
٦ - دوغلی ذاتوں میں سب سے گھٹیا ذات، شودر باپ اور برہمن ماں کا بیٹا، ایک نیچ قوم جو شراب پیتی اور سور چراتی ہے۔