حضرت

( حَضْرَت )
{ حَض + رَت }
( عربی )

تفصیلات


حضر  حَضْرَت

عربی زبان میں 'حَضَرَتْ' کے اعراب کے ساتھ ثلاثی مجرد کے باب سے اسم فاعل ہے۔ اردو میں بطور اسم صفت اور اسم نکرہ کے رائج ہے۔ ١٦١١ء کو قلی قطب شاہ کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر، مؤنث - واحد )
جمع   : حَضْرات [حَض + رات]
١ - تعظیمی کلمہ جو ناموں (اسمی یا وصفی) سے پہلے لگایا جاتا ہے (بیشتر بزرگ و مقدس ہستیوں کے اسما سے پہلے اضافت ساتھ اور اضافت کے بغیر بھی)، جناب، حضور، قبلہ۔
"خاندانی اعتبار سے حضرت جام نوائی بدایونی کا تعلق بدایوں کے مشہور خانوادہ شیوخ حمیدی سے ہے"۔    ( ١٩٢٤ء، تنقید و تفہیم، ١٥٨ )
٢ - تعظیمی کلمہ جو کسی نام کی جگہ ہو۔
 شاداب مدینہ ہوا حضرت کی دعا سے ہر سو جو میں فرما کے شجر دیکھ رہا ہوں
٣ - تعظیمی کلمہ چیزوں کے مجسم تصور کے ساتھ۔
"ایک دن میں نے جب شیخ سے عرض کیا حضرت میں نے کیاریوں میں جو یہ گلاب لگا رکھے ہیں ایک دن . پھول نظر آئیں گے"۔    ( ١٩٥٦ء، شیخ نیازی، ٧٤ )
٤ - بارگاہ، درگاہ۔
 کون تھا جو حضرتِ باری میں دیتا کچھ مدد وہ تو یہ کہیے وسیلہ درمیانی مل گیا
٥ - دربار شاہی۔
صفت ذاتی ( واحد )
١ - بزرگ، صاحب عظمت۔
 او بی بی ہے حضرت بڑی صاحب آج جنن ناؤں کد بانو واں کا ہے تاج
٢ - ذاتِ شریف، شریر، چالاک۔
"یہ ہندوستان والے بھی کیسے حضرت ہیں جہاں دیکھو انہیں کا قبضہ"۔      ( ١٩١٣ء، سفرنامہ حسن نظامی، ١٦٤ )