صاحب

( صاحِب )
{ صا + حِب }
( عربی )

تفصیلات


صحب  صاحِب

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم فاعل ہے۔ عربی سے اردو میں من و عن داخل ہوا اور بطور اسم نیز گا ہے بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٥٩١ء کو "قصہ فیروز شاہ (قلمی نسخہ)" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : صاحِبَہ [صا + حِبَہ]
جمع   : صاحِبان [صا + حِبان]
جمع ندائی   : صاحِبو [صا + حِبو (و مجہول)]
جمع غیر ندائی   : صاحبوں [صا + حبوں]
١ - القاب جو اسماء کے بعد عزت و احترام کے لیے مستعمل ہے۔
"ایک دفعہ مہندر نے اس سے کہا کہ دلجیت کے گھر گرنتھ صاحب کا ختم ہے وہ بھی اس کے ساتھ چلے۔"      ( ١٩٦٦ء، انگلیاں فگار اپنی، ١٤٠ )
٢ - کلمہ تعظیم یا تخاطب؛ مراد: حضرت، جناب، آپ۔
 ہم سے اس درجہ تغافل بھی نہ لر تو صاحب ہم بھی کچھ اپنی دعاؤں میں اتر رکھتے ہیں      ( ١٩٧٥ء، پچھلے پہر، ٧٤ )
٣ - آقا، مالک، مخدوم، افسر۔
"سپاہی کے واسطے کوئی چیز اس سے بہتر نہیں ہے کہ وہ اپنے صاحب کی ذات کی حفظ و حمایت میں اپنی جان فدا کرے۔"      ( ١٨٩٧ء، تاریخِ ہندوستان، ٢٨٨:٣ )
٤ - شوہر، خاوند، (پیشتر خطاب کے موقع پر)۔
 وفورِ شرم سے حالت خراب ہے صاحب علی کی جائی کو خوفِ عتاب ہے صاحب    ( ١٩١٢ء، شمیم، ریاض شمیم، ٩:٥ )
٥ - زوجہ، بی بی (بیشتر خطاب کے موقع پر)۔
 صاحب بھلا عدم کے مسافر کو کیا حجاب ہم یوں ہیں جس طرح کہ سرِآب ہو حباب    ( ١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٩٤:٣ )
٦ - بول چال میں والدہ یا بیوی وغیرہ الفاظ کے بعد بطور تعظیم بجائے صاحبہ کے مستعمل۔
"ارے بھائی بات سمجھا کرو . یہ مجھ سے کیسے ممکن ہے کہ میں اس کو چھوڑ دوں محض بیوی صاحب کی خاطر۔"    ( ١٩٦٣ء، قاضی جی، ٢٠٥:٣ )
٧ - دوست، رفیق، ساتھی، ہمنشین۔
 شقی تھا تخت حکومت پہ گرد صاحب تھے دو رویہ کرسیوں پر سات سو مصاحب تھے    ( ١٩١٢ء، اوج (نوراللغات) )
٨ - محبوب یا معشوق کے لیے کلمۂ خطاب۔
 چپ چاپ بیٹھنے میں تو صاحب مزا نہیں شوخی کی چھیڑ چاہیے کچھ کچھ حیا کے ساتھ    ( ١٩١١ء، ظہیر دہلوی، دیوان، ١١٤:٢ )
٩ - غیر معین شخص، شریف آدمی نیز ہر شریف شخص کے لیے کلمہ خطاب۔
"میں صاحب آدمی ہوں میرا سرمایہ سب کی نظر کے سامنے ہے جس کا دل چاہے آئے دیکھ لے۔"      ( ١٩٧٠ء، قافلہ شہیدوں کا (ترجمہ)، ٦٩٧ )
١٠ - یورپین، انگریز (جو مخدوم یا افسر ہو)۔
 مل گیا حضرت لیڈر کو تو صاحب سے ڈنر کیا ہوا، اس سے اگر قوم کا فاقہ نہ گیا      ( ١٩٤٢ء، سنگ و خشت، ٣٥ )
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
١ - جس سے کوئی چیز یا بات منسوب ہو، رکھنے والا، مالک یا قابض کے معنی میں (اضافت کے ساتھ یا بلا اضافت مستعمل)۔
"آپ اپنے عہد کے مشہور واعظ اور صاحب تصنیفات کثیرہ ہیں۔"      ( ١٩٤٦ء،شیرانی، مقالات، ٢٢٣ )
٢ - [ کنایۃ ]  خدا تعالٰی۔
"صاحب (اللہ) نے ان کی عرض سن لی اور جانوروں کی کھالوں کھروں اور سروں میں روح ڈال دی۔"      ( ١٩٦٢ء، مکایاتِ پنجاب، ٨٨:١ )