قول

( قَوْل )
{ قَوْل }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مصدر ہے اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں ١٤٢١ء کو "معراج العاشقین" میں استعمال کیا گیا۔

اسم حاصل مصدر ( مذکر - واحد )
جمع   : اَقْوال [اَق + وال]
١ - بات، بچن، سخن، گفتار، بات چیت، بیان
 قولِ شاعر لکیر پتھر کی گو نہ لائے دلیل دعوٰی پر      ( ١٩٢٦ء عروس فطرت، اثر لکھنوی، ١٢١ )
٢ - عہد، پیمان، وعدہ، اقرار، قسم، سوگند
"ایک روز.اسفند یار.بدلہ لینے کا قول دہرا دیا تھا"      ( ١٩٢٧ء عشق جہانگیر، محمد شفیع، ١٥ )
٣ - مقولہ، بیان، فرمودہ، کلام خصوصاً رسمی، اہم قابل لحاظ بات۔
"ملا واحدی، سرعبدالقادر، مولانا تاجور اور امتیاز علی تاج کے قول کے مطابق ناشروں نے ان کی کتابوں سے لاکھوں روپے کھائے "    ( ١٩٨٢ء مری زندگی فسانہ، ٢٦ )
٤ - کہاوت، مثل، روایت
٥ - صوفیانہ اور صوفی بزرگوں کے حقانی اشعار جو قوال گاتے ہیں۔
"ایک طرف قوال کا بیٹھ کر قول گانا اور ڈھاریوں کا خیال کی تانیں لے کر اپنے گلوں کی تیزی دکھلانا"    ( ١٨٠٤ء گلزار چین، ٣٨ )
٦ - گانے کا ایک انداز، جس کے موجد امیر خسرو ہیں اسے دھرپت کی جگہ بنایا گیا تھا۔
"امیر خسرو نے گیتوں میں جو شاہراہیں قائم کی ہیں ان کے علاوہ کوئ نئ ڈگر اب تک نہیں بنی یعنی ہولی، رنگ، بسنت کے تصوفانہ گیت، قول، قلیانہ اور قوالی کے علاوہ کوئی نیا راستہ تلاش نہ کر سکا"۔    ( ١٩٨٦ء اردو گیت، ١٣١ )
  • speech
  • word
  • saying
  • dictum;  assertion
  • declaration;  promise
  • agreement;  vow
  • resolve;  a kind of song