بندہ

( بَنْدَہ )
{ بَن + دَہ }
( فارسی )

تفصیلات


بستن  بَنْدَہ

فارسی زبان میں 'بستن' مصدر سے اسم مشتق ہے جس کا فعل مضارع 'بندد' ہوتا ہے اسی سے 'بند' ہے اصل لفظ اسم فاعل کے طور پر مستعمل ہے۔ اردو میں ١٦٤٩ء کو "خاورنامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : بَنْدی [بَن + دی]
واحد غیر ندائی   : بَنْدے [بَن + دے]
جمع   : بَنْدے [بَن + دے]
جمع استثنائی   : بَنْدَگان [بَن + دَگان]
جمع ندائی   : بَنْدو [بَن + دو (و مجہول)]
جمع غیر ندائی   : بَنْدوں [بَن + دوں (و مجہول)]
١ - (کسی کی) عبادت کرنے والا، پوجنے والا، پرستش کرنے والا، (کسی کو) ماننے والا، عبد۔
 میں تو تجھے اپنا رب سمجھتا ہوں ضرور تو بھی تو مجھے بندہ سمجھتا ہوتا      ( ١٩٦١ء، رباعیات، امجد، ٧ )
٢ - غلام، نوکر، مطیع، فرمانبردار۔
 نہیں کچھ اور طاقت تو پانوں دابیں گے ہمیں کو بندہ بنانا غلام کر لینا      ( ١٩٠٧ء، دیوان، راسخ دہلوی، ٢ )
٣ - عاجز، نیازمند، ناچیز، خاکسار (بطور انکسار خود متکلم کے لیے)
"اختلاط عجم سے لفظ آپ اور تم اور بندہ داخل روزمرہ ہو گئے"۔      ( الحقوق و الفرائض، ١٦٩:٣ )
٤ - اندھی تقلید کرنے والا، (غلاموں کی طرح) پابند۔
"نئی تعلیم کے معصوم بندے یہ خیال کرنے لگے ہیں کہ شاعری کی وقعت کا دارومدار محض خیالات کی بلندی اور پاکیزگی پر ہے"۔      ( ١٩٢٨ء، مضامین، چکسبت، ٢٦٢ )
٥ - شخص، آدمی۔
"چھ برس کا پرانا بالا پوش وہ بھی ایک اور بندے چھے"۔      ( ١٩٢٨ء، پس ردہ، ٤١ )
  • slave
  • bondman
  • servant;  humble servant;  a term used by a speaker of himself
  • when addressing a superior);  human being
  • creature