بیل

( بیل )
{ بیل (ی مجہول) }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان میں لفظ 'ویّل' سے ماخوذ ہے۔ اردو میں ١٤٢١ء کو بندہ نواز نے استعمال کیا۔ بحوالہ "شکارنامہ، شہباز، سکھر، فروری، ٦٣"۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : بیلیں [بے + لیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : بِیلوں [بے + لوں (و مجہول)]
١ - وہ پودا جس کی نرم لچکیلی شاخیں زمین پر پھیلتی یا کسی چیز کے سہارے اوپر چڑھتی ہیں۔
"بعض جزائر میں ایسی بیلیں ہوتی ہیں جو درختوں پر لپٹی رہتی ہیں"۔    ( ١٩١٤ء، مقالات، شبلی، ٥٢:٧ )
٢ - ایک پھول دار پودا، راے بیل۔
 بیلا کاٹے تھا کدارے کا گلا وجد میں تھے بیل بیلا، سرہلا    ( ١٨٣٧ء، مثنوی بہاریہ، ١٢ )
٣ - وہ گل بوٹے جو کپڑے یا کاغذ، پتھر یا دھات وغیرہ پر بنائے جاتے ہیں (بیشتر بوٹا کے ساتھ مستعمل)۔
 بیلیں ہوں یا ہوں بوٹیاں، چبھتی ہیں کامدانیاں چند دوپٹے پھاڑ لوں، رکھی ہیں جامدانیاں    ( ١٩٢٥ء، عالم خیال، شوق قدوائی، ٣٧ )
٤ - ایک قسم کا کم عرض فیتا جس میں سونے چاندی اور ریشم یا سوت کے تاروں سے بیل بوٹے بنے ہوتے ہیں یا بنائے جاتے اور دوپٹے وغیرہ قیمتی لباس کے کناروں پر ٹانکے جاتے ہیں۔
 اس قدر رشک پری مائل مخموری ہے بیل بھی ہے جو دوپٹے میں تو انگوری ہے    ( ١٨٤٣ء، دیوان رند، ٢، ٢٩٩ )
٥ - سلسلہ، نسل، آل اولاد۔
 اب ختم ہوتا ہے یہ خط پھولو پھلو، سکھ سے رہو بیلیں بڑھیں، گودی بھرے بیٹا ہو پیدا چاند سا      ( ١٩١٠ء، لڑکیوں کی انشا، ٧٧ )
٦ - قد و قامت۔
"بٹیر تھا کہ الامان اچھا ڈیڑھ بالست کی بیل کا، یہ اونچا جنور"      ( ١٩٥٤ء، اپنی موج میں، ٢١ )
٧ - ایک سفید پھول، بیلا۔
  • any climbing or creeping plant
  • creeper
  • climber
  • vine;  tendril;  offspring
  • issue
  • descendants;  strings
  • rows
  • or festoons of leaves hung around a room or tent;  embroidery
  • flowered tissue