ابتر

( اَبْتَر )
{ اَب + تَر }
( عربی )

تفصیلات


بتر  اَبْتَر

ثلاثی مجرد کے باب سے اسم تفضیل ہے۔ اردو میں ١٦١١ء کو "کلیات قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - منتشر، پراگندہ۔
 لکھ دیا ہم نے انھیں اپنی پریشانی کا حال واہ کیا سمجھا ہے ان کی زلف ابتر کا جواب    ( ١٩٣٥ء، ناز، کلیات )
٢ - جس میں ربط یا ترتیب نہ ہو، بے ترتیب، انمل بے جوڑ، نامربوط۔
 بڑھ جاتا ہے جب ذوق نظر اپنی حدوں سے ہو جاتے ہیں افکار پراگندہ و ابتر    ( ١٩٣٦ء، ضرب کلیم، ٩١ )
٣ - پریشان و حیران۔
 عشق کے پنتھ منے ہلجے ہے مانی منگل عاقلاں دیکھ انوں کو ہوے ہیں سب ابتر      ( ١٦١١ء، قلی قطب شاہ، کلیات، ١١١:٢ )
٤ - خراب، ردی، خستہ، تباہ و برباد۔
"زمانے کی نیرنگی سے اس طبیب حانق کا احوال ابتر ہوا"۔      ( ١٧٤٦ء، خرد افروز و دلبر، ٣٥٨ )
٥ - اخلاقی طور پر بد، آوارہ، بدشعار، بدچلن۔
"آپے سے باہر ہو گئیں، نگوڑیاں ابتر ہو گئیں"      ( ١٩٠١ء، راقم دہلوی، عقد ثریا، ١٧ )
٦ - [ گنجفہ ]  بے میر کی بازی جو رلا ملا دی جاتی ہے (بانٹ میں میر جب کسی کھلاڑی کے حصّے میں نہیں آتا تو پتے ملا دیے جاتے ہیں۔)
 جیتوں قمار عشق میں ناصح میں کس طرح اس گنجفے میں بازی ہے ابتر لگی ہوئی      ( ١٨٧١ء، منتہی، دیوان، ١٧٨ )
٧ - بے اولاد، لاولد، منقطع النسل۔
 کہتے تھے ابتر میان خاص و عام دم بریدہ بے پسر ہے اس کا نام      ( ١٧٨٠ء، تفسیر مرتضوی، ٢٥٠ )
٨ - ایک مہلک سانپ جو کوتاہ دم ہوتا ہے۔
"اب نام سانپوں کے جس قدر یاد آتے ہیں حوالہ قلم کیے جاتے ہیں . ابتر، ناسر، این . الخ"۔      ( ١٨٧٣ء، تریاق مسموم، ٤ )
٩ - [ عروض ]  وہ رکن شعر جس میں بتر (زحاف) واقع ہو، جیسے فعولن سے فع۔
"بعض اس کو بجائے ابتر کہنے کے محذوف مقطوع کہتے ہیں"۔      ( ١٩٢٥ء، بحرالفصاحت، ١٤٨ )
  • ruined
  • spoiled;  deteriorated
  • vitiated;  worthless
  • destitute
  • miserable
  • poor;  in disorder
  • disarranged;  defective
  • imperfect;  false (as a deal at cards)