لنڈورا

( لَنْڈورا )
{ لَن + ڈو (و مجہول) + را }
( سنسکرت )

تفصیلات


لنڈا  لَنْڈورا

سنسکرت زبان سے ماخوذ صفت کا محرف 'لنڈورا' اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٤٨ء کو "تاریخ ممالک چین" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
جنسِ مخالف   : لَنْڈوری [لَن + ڈو (و مجہول) + ری]
واحد غیر ندائی   : لَنْڈورے [لَن + ڈو (و مجہول) + رے]
جمع   : لَنْڈورے [لَن + ڈو (و مجہول) + رے]
جمع غیر ندائی   : لَنْڈوروں [لَن + ڈو (و مجہول) + روں (و مجہول)]
١ - بے دم کا (پرندہ)، دم بریدہ۔
 کہ بی بلی بخشو ہماری خطا کہ اس سے تو چوہا لنڈورا بھلا      ( ١٩٥٠ء، ضمیر خامہ، ٥٨ )
٢ - [ مجازا ]  جس کی شادی نہ ہوئی ہو، مجرد۔
"سب جوڑے جوڑے تھے، صرف لالی لنڈورا تھا۔"      ( ١٩٧٨ء، جانگلوس، ٣١٧ )
٣ - تنہا، اکیلا، بے یارو مددگار۔
"وہ . ولایت کی چمپت ہوئی میاں لنڈورے رہ گئے۔"    ( ١٩٠٨ء، اقبال دلہن، ٢٥ )
٤ - آوارہ
"یہ ١٩٤٨ء کی بات ہے . کام کاج تھا نہیں لنڈورے پھرتے تھے۔"    ( ١٩٨٩ء، افکار، کراچی، اگست، ٥٤ )
٥ - جس کے سر یا مونچھ وغیرہ کے بال نہ ہوں، صفا چٹ، گنجا۔
"خوجی نے جو آئینے میں اپنی صورت دیکھی تو مونچھ نہیں لنڈورے بنے ہوئے۔"      ( ١٨٨٠ء، فسانہ آزاد، ٢٧٨:٢ )