صفت ذاتی
١ - منتشر، پراگندہ۔
لکھ دیا ہم نے انھیں اپنی پریشانی کا حال واہ کیا سمجھا ہے ان کی زلف ابتر کا جواب
( ١٩٣٥ء، ناز، کلیات )
٢ - جس میں ربط یا ترتیب نہ ہو، بے ترتیب، انمل بے جوڑ، نامربوط۔
بڑھ جاتا ہے جب ذوق نظر اپنی حدوں سے ہو جاتے ہیں افکار پراگندہ و ابتر
( ١٩٣٦ء، ضرب کلیم، ٩١ )
٣ - پریشان و حیران۔
عشق کے پنتھ منے ہلجے ہے مانی منگل عاقلاں دیکھ انوں کو ہوے ہیں سب ابتر
( ١٦١١ء، قلی قطب شاہ، کلیات، ١١١:٢ )
٤ - خراب، ردی، خستہ، تباہ و برباد۔
"زمانے کی نیرنگی سے اس طبیب حانق کا احوال ابتر ہوا"۔
( ١٧٤٦ء، خرد افروز و دلبر، ٣٥٨ )
٥ - اخلاقی طور پر بد، آوارہ، بدشعار، بدچلن۔
"آپے سے باہر ہو گئیں، نگوڑیاں ابتر ہو گئیں"
( ١٩٠١ء، راقم دہلوی، عقد ثریا، ١٧ )
٦ - [ گنجفہ ] بے میر کی بازی جو رلا ملا دی جاتی ہے (بانٹ میں میر جب کسی کھلاڑی کے حصّے میں نہیں آتا تو پتے ملا دیے جاتے ہیں۔)
جیتوں قمار عشق میں ناصح میں کس طرح اس گنجفے میں بازی ہے ابتر لگی ہوئی
( ١٨٧١ء، منتہی، دیوان، ١٧٨ )
٧ - بے اولاد، لاولد، منقطع النسل۔
کہتے تھے ابتر میان خاص و عام دم بریدہ بے پسر ہے اس کا نام
( ١٧٨٠ء، تفسیر مرتضوی، ٢٥٠ )
٨ - ایک مہلک سانپ جو کوتاہ دم ہوتا ہے۔
"اب نام سانپوں کے جس قدر یاد آتے ہیں حوالہ قلم کیے جاتے ہیں . ابتر، ناسر، این . الخ"۔
( ١٨٧٣ء، تریاق مسموم، ٤ )
٩ - [ عروض ] وہ رکن شعر جس میں بتر (زحاف) واقع ہو، جیسے فعولن سے فع۔
"بعض اس کو بجائے ابتر کہنے کے محذوف مقطوع کہتے ہیں"۔
( ١٩٢٥ء، بحرالفصاحت، ١٤٨ )