آئینہ دار

( آئِینَہ دار )
{ آ + ای + نَہ + دار }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے اسم 'آئینہ' کے ساتھ فارسی مصدر داشتن سے مشتق صیغہ امر 'دار' بطور لاحقہ فاعلی ملانے سے مرکب بنا۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم اور صفت مستعمل ہے۔١٦٣٥ء میں "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( واحد )
جمع غیر ندائی   : آئِینَہ داروں [آ + ای + نَہ + دا + روں (و مجہول)]
١ - وہ ملازم یا ملازمہ جو آئینہ دکھانے کی خدمت پر مامور ہو، حجام، نائی۔
 نگاہ سوز ہے ازبسکہ جلوہ عارض کوئی حسِیں ترا آئینہ دار ہو نہ سکا      ( دیوان حبیب، ١٩٠٠، ٨ )
صفت ذاتی
١ - ظاہر کرنے والا، ترجمان، عکاس۔
 گداز عشق سے لبریز تھا قلب حزیں اس کا مگر آئینہ دار شرم تھا روے حسیں اس کا      ( اخترستان، ١٩٢٦ء، ٦٦ )
٢ - (عمارت کا حصہ یا لکڑی وغیرہ کا فرنیچر، جیسے : طاق، کواڑ، الماری وغیرہ)، جس میں آئینے جڑے ہوئے ہوں، آئینے والا۔
"منزل ثانی پر ہر طرف میانہ میں سہ درہ مرغولی جس میں اب آئینہ دار طاق لگے ہوئے ہیں اور ان کی بغلوں میں ایک ایک محراب مرغولی ."      ( تحقیقات چشتی، ١٨٦٢ء، ٨٩٤ )
٣ - آئینہ بنانے والا؛ آئینہ دیکھنے والا، آئینے کا مالک۔
 خود کو مٹا کے کیجے تلاش اپنے یار کی آئینہ میں شبیہ ہے آئینہ دار کی      ( بستان تجلیات، ١٩٣٨ء، ١١٤ )