فارسی زبان سے اسم 'آئینہ' کے ساتھ فارسی مصدر داشتن سے مشتق صیغہ امر 'دار' بطور لاحقہ فاعلی ملانے سے مرکب بنا۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم اور صفت مستعمل ہے۔١٦٣٥ء میں "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔
گداز عشق سے لبریز تھا قلب حزیں اس کا مگر آئینہ دار شرم تھا روے حسیں اس کا
( اخترستان، ١٩٢٦ء، ٦٦ )
٢ - (عمارت کا حصہ یا لکڑی وغیرہ کا فرنیچر، جیسے : طاق، کواڑ، الماری وغیرہ)، جس میں آئینے جڑے ہوئے ہوں، آئینے والا۔
"منزل ثانی پر ہر طرف میانہ میں سہ درہ مرغولی جس میں اب آئینہ دار طاق لگے ہوئے ہیں اور ان کی بغلوں میں ایک ایک محراب مرغولی ."
( تحقیقات چشتی، ١٨٦٢ء، ٨٩٤ )