آتشی

( آتَشی )
{ آ + تَشی }
( فارسی )

تفصیلات


آتَش  آتَشی

فارسی زبان کے لفظ 'آتش' کے ساتھ فارسی ہی کے قاعدے کے تحت 'ی' بطور لاحقۂ نسبت لگی اور 'آتشی' بطور اسم صفت مستعمل ہوا۔ اور اردو میں سب سے پہلے ١٦٤٩ء میں "خاور نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت نسبتی
١ - آتش کی طرف منسوب : آگ کا، آگ کی سی خاصیت رکھنے والا، آگ کی طرح گرم اور جلا دینے والا۔
"خواب دیکھا کہ میں دہانہ پہاڑ آتشی پر پھر رہا ہوں۔"      ( ١٨٨٠ء، ماسٹر رام چندر، ١٩٠ )
٢ - جس کی خلقت میں جزو غالب آگ ہو، آگ کی مخلوق، جن وغیرہ۔
 بولی وہ بشر ہو تم دلاور سرسبز ہو قدم آتشی پر    ( ١٨٣٨ء، گلزار نسیم، ٣٨ )
٣ - آگ یا آگ سے بنی ہوئی مخلوق کی خاصیت۔
 توں کر بھار سر تھے آپس سرکشی توں ہے خاک کا، چھوڑ دے آتشی    ( ١٦٤٩ء، خاور نامہ، ٦٩٠ )
٤ - جلد آگ پکڑ لینے والا، آتشگیر۔
"مٹی کے تیل اور دیگر آتشی اشیا کے مسائل۔"    ( ١٩٣٧ء، ہندوستان کا نیا دستور حکومت، ١٠٣ )
٥ - آگ برسانے یا لگانے والا اسلحہ۔
"نو سو نفط انداز تین ٹکڑیوں میں تقسیم کر دیے اور جنگی ہاتیوں کو بھگانے میں یہ آتشی حربہ بہت مفید ثابت ہوا۔"    ( ١٩٥٣ء، تاریخ مسلمانانِ پاکستان و بھارت، ٨٧ )
٦ - بینٹی کی ایک قسم جس کے دونوں سروں پر آگ لگا کر گھماتے ہیں۔
"یہ . ایک قسم کا ورزشی آلہ ہے۔ اس کی بہت سی قسمیں بنائی ہیں : سادی، آبی، آتشی، جھولہ، تکونی وغیرہ۔"      ( ١٩٢٥ء، اسلامی اکھاڑا، ٢٠ )
٧ - گہرا سرخ رنگ۔
"حالات مذکور میں وسطی حصے کی تنویر کا رنگ آتشی ارغوانی تھا۔"      ( ١٩٣٩ء، طبیعی مناظر، ١٤٢ )
٨ - ایک قسم کا کبوتر جو شعلہ رنگ ہوتا ہے۔
"سبز اور سرخ کے میل سے آتشی پیدا ہوا۔"      ( ١٨٩١ء، رسالہ کبوتر بازی، ٦ )
  • of fire
  • composed of fire;  fiery
  • hot
  • passionate