عربی زبان میں ثلاثی مجرد سے اسم فاعل 'باقی' کے ساتھ عربی قواعد کے تحت 'ات' بطور لاحقۂ جمع لگنے سے باقیات بنا۔ اردو میں اصلی حالت اور معنی میں ہی مستعمل ہے۔ ١٨٢٢ء میں "موسیٰ کی توریت مقدس" میں مستعمل ملتا ہے۔
١ - وہ بقایا رقمیں جو کسی کے ذمے ہوں، غیر وصول شدہ مطالبے۔
"نقشجات باقیات - مرتب ہو کر احکام اس کے حسب سررشتہ بنام ناظمان و عمال وغیرہ لکھے جاتے تھے۔"
( ١٨٧٢ء، تاج الاقبال، ٦٦:٣ )
٢ - بچی ہوئی چیزیں۔
"باقیات میں یا تو محض دستاویزات کے مسودے ہیں یا خطوط نویسی کے القاب و آداب۔"
( ١٩٥٢ء، ثقافت پاکستان، ٢٨١ )
٣ - کسی واقع وغیرہ کے مابعد اثرات۔
"اس قرن کے اواخر میں سنہ ٥٧، ٥٨ کی افراتفری کے باقیات اور ملکی پریس کی پریشانی دور ہونے لگی۔"
( ١٩٣٥ء، سہ ماہی، اردو، اپریل، ٢٨١ )
٤ - یادگاریں، آثار قدیمہ۔
"وادی سندھ کی باقیات کے اس وسیع جائزے کے بعد ہم بجاطور پر کہہ سکتے ہیں کہ موہنجو داڑو اور ہڑپا صنعتی اعتبار سے مثالی حیثیت رکھتے تھے۔"
( ١٩٥٩ء، وادی سندھ کی تہذیب، ١٠٥ )