زرتار

( زَرتار )
{ زَر + تار }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سےماخوذ اسما 'زر' پر مشتمل مرکب 'زرتار' اردو میں بطور صفت اور گاہےبطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر )
جمع   : زَرتاریں [زَر + تا + ریں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : زَرتاروں [زَر + تا + روں (و مجہول)]
١ - سونے کا تار، سنہری تار۔
"کانوں میں سرس کے پھولوں کا جھومر ہونا چاہیے جس کے زرتار گالوں کوچوم رہے ہوں۔"      ( ١٩٣٨ء، شکنتلا (اختر حسین رائے پوری)، ١٥٧ )
٢ - [ نباتیات ]  پودوں کا باریک دھاگے نما ریشہ جس پر زیرۂ گل لگا ہو۔
"رشتک یا زرتار یہ باریک دھاگے نما ریشہ ہے جس پر زردان لگا ہوتا ہے۔"      ( ١٩٦٤ء، ابتدائی نباتیات، ٨٧ )
صفت ذاتی ( واحد )
جمع   : زَرتاریں [زَر + تا + ریں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : زَرتاروں [زَر + تا + روں (و مجہول)]
١ - سنہرا، چمکیلا، درخشاں۔
 سراپا آزاد دستار گراں کے بار سے اور تن نا آشنا تھا خرقۂ زرتار سے      ( ١٩٧١ء، سبطین (تذکرۂ شعرائے بدایوں)، ٣٩٩:١ )
  • gold wire