قمیص

( قَمِیص )
{ قَمِیص }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان سے ماخوذ اسم 'قمیص' ہے اصلی معنی میں اردو میں داخل ہوا اور بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٨١٠ء میں "کلیات میر" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : قَمِیصے [قَمی + صے]
جمع غیر ندائی   : قَمِیصوں [قَمی + صوں (و مجہول)]
١ - کُرتا، بے کلی کا کُرتا، ایک وضع کا پیراہن۔
"تہمینہ کی قمیص جس کے سارے گریبان پر نیچے تک سرخ لیس لگی ہوئی تھی اور سفید ربن پرویا گیا تھا۔"      ( ١٩٧٨ء، بے سمت مسافر، ١٢٥ )
٢ - جدید وضع کا کرتا جس میں کف ہوتے ہیں، کفوں اور گریبان میں بٹن ہوتے ہیں اور کالر ہوتا ہے، آستین کبھی آدھی بھی ہوتی ہیں، کف دار کرتا۔
"آخر پتلون قمیص ہی کیوں نہ پہن لی جائے۔"١٩٨٧ء، آخری آدمی، ١٤٦
٣ - مردے کو دیا جانے والا لباس جس میں نہ کلی ہوتی ہے نہ آستین بلکہ یہ لمبے کرتے کے طور پر بیچ میں سے چاک کیا ہوا ہوتا ہے، کفنی۔
"تین سوتی کپڑے جو سحول کے بنے ہوئے تھے کفن میں دیئے گئے، ان میں قمیص اور عمامہ نہ تھا۔"١٩١٤ء، سیرۃ النبیۖ، ١٨٣:٢