قیام پذیر

( قِیام پِذِیر )
{ قِیام + پِذِیر }

تفصیلات


عربی زبان سے ماخوذ اسم 'قیام' کے ساتھ فارسی مصدر 'پذیرفتن' سے مشتق صیغہ امر 'پذیر' بطور لاحقہ فاعلی ملانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت مستعمل ہے۔ ١٩٨٨ء میں "افکار کراچی" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
جمع غیر ندائی   : قِیام پِذِیروں [قِیام + پِذی + روں (و مجہول)]
١ - مقیم فروکش
"ان کے جانے کے بعد خدیجہ مستور اور حاجرہ مسرور کے گھر والے آ گئے اور پاکستان آنے تک اسی گھر میں قیام پذیر رہے۔"      ( ١٩٨٨ء، افکار، کراچی، اگست، ١٧ )
٢ - دیرپا، مستقل ایک حالت پر قائم۔
"اس قسم کے قیام پذیر اتحاد کی ایک مثال سوڈیم کلورائیڈ کا مالیکیول ہے۔"      ( ١٩٨٥ء، نامیاتی کیمیا، ٧٢ )