شب گرد

( شَب گَرْد )
{ شَب + گَرْد }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'شب' کے بعد فارسی مصدر 'گرد یدن' کا صیغہ امر 'گرد' بطور لاحقۂ فاعلی لگانے سے مرکب بنا۔ اردو زبان میں بطور صفت اور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٤٧ء کو "حملات حیدری" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
جمع غیر ندائی   : شَب گَرْدوں [شَب + گَر + دوں (و مجہول)]
١ - رات کو گھومنے والا، رات کو گشت کرنے والا۔
 پتہ ملتا نہیں راتوں کو اب خوابِ پریدہ کا غرض کیا طائِر شب گرد کو فکر شبستان سے      ( ٢٩٣٣ء، صورت تغزل، ٢٧٦ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : شَب گَرْدوں [شَب + گَر + دوں (و مجہول)]
١ - کوتوال، شحنہ، پہرہ دار، محافظ، نگراں۔
 کمند اس واسطے لایا تھا ہمراہ نہ بہر دزدی اے شب گردِ ذیجاہ      ( ١٩١١ء، تسلیم، نالۂ تسلیم، ٢٦٠ )
٢ - رات کو چوری کرنے والا، رات کو جرم کرنے والا، چور، ڈاکو۔
"چوروں، اچکوں، ڈاکوؤں، جیب کتروں، قزاقوں شب گردوں اور صبح خیزوں کو وہ سزا دوں کہ شہر میں لفظ 'جرم' کے ہجے کرنے والے نہ ملیں۔"      ( ١٩٧٥ء، اچھے مرزا، ٧٠ )
  • چَوکِیدار
  • پَہْریدار