اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - جھٹکا، ہچکولا نیز موچ، چک۔
کمرِ کلک میں آئے گا نہیں گر لچکا بال باندھا لکھوں مضمون کمر کا سیدھا
( ١٨٦٨ء، شعلہ حوالہ (واسوخت رعنا)، ٤٣٠:٢ )
٢ - صدمہ، ضرب۔
لچکا سچ انن کوں لال کا ہے نالاں نہ کس کلال کا ہے
( ١٧٠٠ء، من لگن، ١٠٤ )
٣ - [ سالوتری ] گھوڑے کی کمر کی بیماری جو ریڑھ کی ہڈی اور کمر کے پٹھوں کے خلل سے ہوتی ہے جس کی وجہ سے گھوڑا سواری دینے کے قابل نہیں رہتا۔ (اصطلاحات پیشہ وراں، 102:5)
"ہرگز کچھ خوف نہ کریں کہ اس حیلے سے لچکا صاف نکل جاتا ہے۔"
( ١٨٧٢ء، رسالہ سالوتر، ٢١٢:٢ )
٤ - چلنے میں حرکت کی دلکش ادا، مٹک، جنبش، لرزش۔
"چال میں وہ لچکا نہ آیا جو عورت کے لیے ضروری ہے۔"
( ١٩٦٧ء، عشق جہانگیر، ٢٧٧ )
٥ - زری کی تیار کی ہوئی گوٹ جو دو انگل سے چار انگل تک چوڑی ہو، چوڑا گوٹا۔
افشاں کے ملیں گے تم کو جگنو وہ مانگ کہ کہکشاں کا لچکا
( ١٩٨١ء، ورقِ انتخاب، ٢٢ )
٦ - [ بنائی ] موگا، ریشم کا زنانہ پاجاموں کے لائق تیار کیا ہوا کپڑا۔ (اصطلاحات پیشہ وراں، 87:2)
٧ - بڑی کشتی، بجرا، مور پنکھی۔
"ساٹھ ستّر کشتی، بجرا، مور پنکھی، لچکا جن میں ہزارہا کنول. منور ہیں۔"
( ١٩٤٣ء، دلی کی چند عجیب ہستیاں، ٥٤ )