لرزہ خیز

( لَرْزَہ خیز )
{ لَر + زَہ + خیز (ی مجہول) }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'لرزہ' کے بعد فارسی مصدر 'خاستن' صیغہ امر 'خیز' بطور لاحقہ فاعلی لگانے سے مرکب بنا۔ اردو زبان میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٩٥٣ء کو "انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - لرزہ انگیز، خوف سے کپکپی پیدا کرنے والا، رونگٹے کھڑے کر دینے والا۔
"کالی کالی! اے لرزہ خیز دانتوں والی دیوی! تمام خبیثوں کو کاٹ دے۔"      ( ١٩٩٠ء، بھولی بسری کہانیاں، بھارت، ٢٣٢:٢ )