اسم صوت ( مذکر - واحد )
١ - گھنگرو، پازیب، پایل، چھاگل یا زنجیر وغیرہ کی آواز۔
بن جاتی ہے دل میں خلش خار تمنا جھنکار ترے پاؤں کے زیور سے نکل کر
( ١٩١٧ء، کلیات حسرت موہانی، ١٢٦ )
٢ - تلوار یا خنجر وغیرہ کے چلنے گرنے یا ٹکرانے کی آواز، جنگی سازو سامان کے گرنے یا ٹکرانے کی آواز۔
"دعوت حق کے جواب میں ہر طرف سے تلوار کی جھنکاریں سنائی دے رہی تھیں۔١٩١ء، سیرۃ النبیۖ، ٢٤٩:١
٣ - مختلف دھاتوں (پیتل، تانبے یا چاندی وغیرہ کے) ظروف یا سکے وغیرہ کی آواز، زنجیر یا بیٹری وغیرہ کی کھنکھناہٹ۔
"بیڑیوں کی جھنکار کو روپے کی جھنکار سمجھی۔"
( ١٨٩٢ء، طلسم ہوش ربا، ٥٧٧:٦ )
٤ - ستار یا جلترنگ وغیرہ قسم کے باجے کی آواز، جھن جھن، گھنٹے کی آواز کے بعد کی گونج، تھرتھراہٹ کی آواز، گونج۔
"کبھی خواب کے پیرائے میں وحی آتی تھی مگر اکثر گھنٹے کی سی جنکار سن پڑتی تھی۔"
( ١٨٩٠ء، لکچروں کا مجمعوعہ، ٢٠١:١ )
٥ - شیشے یا چینی کے برتن گرے ٹوٹنے یا ٹکرانے کی آواز چھناکا۔
"دفعہ میں نے گلاس کے گرنے کی جھنکار سنی۔"
( ١٩٢٤ء، خونی راز، ٥٥ )
٦ - مور کے بولنے کی آواز۔
"شیر کا ہمہمہ طاؤس کی جھنکار، کویل کی کوک وغیرہ وغیرہ۔"
( ١٩١٤ء، شبلی، مقالات، ٢٨:٢ )
٧ - جھینگر کی آواز۔
"جھینگروں نے جھنکار مچا رکھی تھی۔"
( ١٩٤٤ء، رفیق حسین، گوری ہو گوری، ٦٢ )
٨ - جھنجھناہٹ، لرزش سے پیدا ہونے والی آواز، آواز کی تھرتھراہٹ۔
"الفاظ . جو مختلف زبانوں میں اشتراک الصوت رکھتے ہیں اپنی زیریں جھنکار سے جاذب قلوب سیاحان و راہ روند گان اردو ہوں گے۔"
( ١٩٣٤ء، اودھ پنچ، لکھنو، ١٧، ٣:٢ )