آواز

( آواز )
{ آ + واز }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اور اصلی حالت اور اصلی معنی میں ہی اردو میں ماخوذ ہے۔ سب سے پہلے ١٦٦٥ء میں "پھول بن" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : آوازیں [آ + وا + زیں (یائے مجہول)]
جمع ندائی   : آوازو [آ + وا + زو (واؤ مجہول)]
جمع غیر ندائی   : آوازوں [آ + وا + زوں (واؤ مجہول)]
١ - [ اصلا ]  کان کے ذریعے ہوا کی لہر یا حرکت کا احساس، جو سنائی دے، صدا، ندا، صوت (جیسے : ہانک پکار، گانے کی دھن، لے، تان، باج، جھنکار، ٹھائیں ٹھائیں، چیخ، کراہ، گونج، بھنبناہٹ، آہٹ، دھماکہ وغیرہ)۔
 تالاب میں بھی ہے بج رہا ساز لہروں اور کشتیوں کی آواز      ( ١٩١٠ء، جذبات نادر، ٢٩٤ )
٢ - [ مجازا ]  سودے والے یا فقیر کی آواز۔
"این اے سی کی اجازت کے بغیر پھل اور ترکاری والے دفتر سے متصل چبوترے پر بیٹھتے ہیں اور دن بھر ان کی آوازیں کام میں خلل انداز ہوتی ہیں۔"      ( ١٩٥٢ء، ہفت روزہ 'مراد' خیرپور، ٦ جنوری، ٢ )
٣ - بلاوا
 استغاثہ جو بلند آپ نے مقتل میں کیا شہ کی آواز پہ لبیک کا اک شور اٹھا      ( ١٩١٢ء، شمیم، مرثیہ، ١٣ )
٤ - شہرت، آوازہ۔
"حسن بانو کی سخاوت اور خوبصورت ہونے کا آواز سنتے ہی عاشق ہو گیا۔"      ( ١٨٠١ء، آرائش محفل، حیدری، ١٦ )
٥ - اعلان، مطالبہ، احتجاج۔
"مسلمان عورت . اپنے حقوق کی واپسی کے مطالبے میں تنہا نہیں ہے اس کی آواز پر ہر . مسلمان لبیک کہے گا۔"      ( ١٩٣٦ء، راشدی الخیری، عالم نسواں، ٢٤ )
٦ - کلمات، کلام، بات یا باتیں، گفتگو۔
"ہاتف غیب نے یہ آواز فوج اسلام کے کان میں پہونچائی۔"      ( ١٧٢٣ء، کربل کتھا، ١٤٢ )
٧ - زبان، بولی۔
 وہب کی لاش پہ نوحہ جو پڑھے جاتی تھی اس کی آواز سمجھ ہی میں نہیں آتی تھی      ( ١٩٥٩ء، مراثی نسیم، ٣١٧:٣ )
٨ - (روح، ضمیر یا دل وغیرہ کا) تقاضا، مخلصانہ تجویز وغیرہ (جو ذاتی خواہش سے ہو اور جو عوارض و حالات سے متاثر نہ ہو)۔
"دل کی آواز سادہ ہوتی ہے، کلمہ حق ہمیشہ سادہ ہوتا ہے۔"      ( ١٩٦١ء، عبدالحق، خطبات، ٨٤ )
١ - آواز لگنا
آواز لگانا کا فعل لازم ہے کیا ماں کے پاس بیٹھے ہو مسرور و مطمئن آواز لگ رہی ہے وہ ہل من مبارز      ( ١٩٢٣ء، مرثیہ، بزم اکبرآبادی، ٩ )
[ ہئیت و نجوم  ]  آواز کا خوب سر پر پہونچنا۔'اس کی آواز خوب لگتی ہے یعنی سر پر خوب پہنچتی ہے۔"      ( ١٨٩١ء، امیراللغات، ٢٩٦:١ )
٢ - آواز نکالنا
بولنا، کم سے کم کچھ کہنا؛ رونے یا گانے کا آغاز کرنا۔'ماشاء اللہ کیا گلا ہے آواز نکالتے ہی محفل کا اور رنگ ہو گیا۔"      ( ١٩٢٤ء، نوراللغات، ٢١٠:١ )
٣ - آواز نکلنا
آواز نکالنا کا فعل لازم ہے۔ آواز نکلتی ہے یہ قطرہ خوں سے یا احمد مختار مدد کے لیے آءو      ( ١٩٧٣ء، مناجات بدر، ٤:٢ )
٤ - آواز لگانا
بلند آواز سے اعلان کرنا، پکارتے ہوئے چلنا۔'محل کے نیچے آ کر ٹھہرا اور آواز لگائی کہ میں منتری حساب داں ہوں میں طالب و مطلوب کو باہم ملاتا ہوں۔"      ( ١٩٤١ء، الف لیلہ و لیلہ، ٦٥٧:٧ )
(کسی جانور کا) اونچے سروں میں بولنا، بانگ دینا۔'طائروں نے اس سوز و گداز سے آوازیں لگائیں گویا صور اسرافیل پھکا۔"      ( ١٩٠١ء، قمر، طلسم ہوشربا، ٦٥٧:٧ )
[ ہئیت و نجوم  ]  گانا، الاپنا، تان لگانا۔'واہ میاں کیا آواز لگائی ہے کہ تان سین کی روح بے چین ہو گئی۔"      ( ١٨٩١ء، امیراللغات، ٢:١ )
پکارنا، بلانا، ٹیرنا، جیسے : بھئی میرصاحب کو آواز لگاءو کہ جلدی گاڑی نکالیں اور چلیں۔
سودے والے کا صدا دینا اور بیچنا۔'کوئی آموں کی آواز لگا رہا ہے توکوئی جامنیں پچ رہا ہے۔"      ( ١٨٩٥ء، فرہنگ آصفیہ، ٣٠٧:١ )
فقیر کا صدا دینا۔'فقیر کب سے دروازے پر آواز لگا رہا ہے کچھ دے آءو۔"      ( ١٩٢٤ء، نوراللغات، ١٠٩:١ )
٥ - آواز صاف ہونا
آواز کا نقص دور ہونا، گلا صاف ہو جانا، آواز کا بھدا پن یا بھاری پن جاتا رہنا۔ (امیراللغات، ٢٩٥:١)
٦ - آواز کانوں میں بھر جانا
وہ کان یا آواز جو زیادہ دلکش معلوم ہو یا وہ تقریر جو بہت پسند ہو اس کے خاتمے کے بعد بھی اس کا تصور بندھے رہنا اور ایسا محسوس ہونا جیسے وہی بولی کان سن رہے ہیں۔ لحن داءود کا رتبہ نہیں جس کے آگے ہے بھری کانوں میں وہ ایک بشر کی آواز      ( ١٨٧٩ء، جان صاحب (امیراللغات، ٢٩٦:١) )
٧ - آواز گرمانا
گانا شروع کرنے سے پہلے تان لگا کر، یا کسی اور طریقے سے آواز کو گانے کے لیے تیار کرنا۔'آدھی رات تک تو یونہی گلے بازی کر کے آواز گرماتا رہا۔"      ( ١٩٧٣ء، جہان دانش، ٤٠ )
٨ - آواز لڑنا
آواز میں آواز مخلوط ہونا، ہم آہنگ ہو جانا۔ آوازیں لڑ رہی ہیں چمن میں ہزار کی اک حسن رنگ گل پہ یہ سب قال و قیل ہے      ( ١٩٣٤ء، تجلائے شہاب ثاقب، ٢٥٩ )
٩ - آواز پھولنا
آواز کا پھیلنا اور بھاری ہو جانا، صاف نہ نکلنا۔ کان رکھ کر جو سنو تم تو یہ پھولے آواز میری فریاد کرن پھول بنے کانوں میں      ( ١٨٧٢ء، عاشق، فیص نشان، ١٢١ )
١٠ - آواز دبنا
آواز کا دھیما ہونا، پورے طور پر نہ نکلنا، آواز کا نیچا یا مدھم ہونا۔ کیا رقیب روسیہ ہے چیز ناسخ کے حضور دب گئی آواز خرکی شیر کی آواز سے      ( ١٨٣١ء، دیوان ناسخ، ١٨٦:٢ )
١١ - آواز دینا
پکارنا، بلانا، پکار کر بلانا۔'اس مچھلی والے کی طرح نہ جاءو جس نے مغموم ہو کر خدا کو آواز دی تھی۔"      ( ١٩١٣ء، مضامین ابوالکلام آزاد، ٨٢ )
بولنا، سنسنانا، بجنا۔ سیکڑوں آہیں کروں پر ذکر کیا آواز کا تیر جو آواز دے ہے نقص تیرانداز کا      ( ١٨١٦ء، دیوان ناسخ، ١٥:١ )
(سودے والے یا فقیر کا) صدا لگانا۔'برف والا کہاں چلا گیا ابھی تو یہیں آواز دیتا تھا۔"      ( ١٩٢٤ء، نوراللغات، ٢٠٧:١ )
١٢ - آواز سے آواز ملنا
دو آوازوں کا باہم مشابہ ہونا۔ رخسار بھی گیسو بھی زنخداں بھی ذقن بھی آواز سے آواز بھی ملتی ہے دہن بھی      ( ١٩٤١ء، مرثیہ شہید لکھنوی، ٤ )
١٣ - آواز پر لبیک کہنا
تعاون کے لیے تیار ہونا، تائید میں اٹھ کھڑا ہونا، ساتھ دینا۔'مسلمان عورت . اپنے حقوق کی واپسی کے مطالبے میں تنہا نہیں ہے اس کی آواز پر ہر . مسلمان لبیک کہے گا۔"      ( ١٩٣٦ء، راشدی الخیری، عالم نسواں، ٢٤ )
١٤ - آواز پر(-- پہ) لگانا۔
جانور وغیرہ کو اس طرح سدھانا کہ وہ آواز سنتے ہی اس کے پاس چلا آئے۔ (ماخوذ : امیراللغات، ٢٩٣:١؛ جامع اللغات، ٧٨:١)
١٥ - آواز پر لگنا
سدھے ہوئے جانور وغیرہ کا سدھانے والے کی آواز کو پہچاننا، بولی سمجھنا، سیٹی سمجھنا، سنتے ہی جوابی آواز دینا یا اشارہ سمجھ کے کام کرنے لگنا۔ جب میں نے آہ کی ہے قیامت اٹھائی ہے آواز پر ہے شورش محشر لگی ہوئی      ( ١٩٠٥ء، داغ (نوراللغات، ١٠٧:١) )
١٦ - آواز پڑنا
پکار کر آواز دی جانا؛ خصوصاً عدالت میں پیشی کے لیے فریق مقدمہ کو چپراسی کا بلند آواز سے نام لے کر پکارنا۔'ادھر آواز پڑی، ادھر وہ نیچے اترا۔"      ( ١٩٧٠ء، تاثرات، ملا واحدی، ٦٠ )
١٧ - آواز پیدا ہونا۔
آواز اٹھنا، آواز نکلنا (کسی چیز یا جگہ سے)۔ سر حسین سے آواز یہ ہوئی پیدا میں ہوں علی کا پسر جان فاطمہ زہرا      ( ١٩٦٣ء، مرثیہ فیض بھرت پوری، ١٢ )
١٨ - آواز پھٹنا
(آواز کا) بھاری ہو جانا یا آواز جھرجھری ہو جانا۔ (ماخوذ : نوراللغات، ٢٠٧:١؛ فرہنگ آصفیہ، ٣٠٦:١)
١٩ - آواز آنا
آواز سنائی دینا، آواز کا کان میں پڑنا۔ آتی ہے تیری ہی آواز جدھر جاتا ہوں تو نے کی بات تو ہر ذرے میں گویائی ہے      ( ١٩٢٩ء، نقوش مانی، ١٤٨ )
٢٠ - آواز بجھنا
آواز مدھم ہو جانا، آواز دھیمی پڑ جانا۔ آواز بجھ رہی جو دو گانا کی آج ہے انشا سے کوئی کہہ دے اب اس کا گلا کرے      ( ١٨١٨ء، انشا، کلیات، ٢٠٧ )
٢١ - آواز بند کرنا
خاموش کر دینا، آواز دبا دینا، نہ بولنے پر مجبور کر دیا، گویائی کو سلب کر دینا۔ تھا یہ سوکھی ہوئی اصغر کی زباں کا اعجاز بند کر دی تھی خموشی نے دفوں کی آواز      ( ١٩١٢ء، شمیم، مرثیہ، ١٧ )
[ تعلیمات  ]  رشوت دے کر یا کسی اور دباءو سے کسی شخص کو اعتراض نہ کرنے پر راضی یا مجبور کر دینا۔'ان کے منہ میں نوٹوں کے پلندے ٹھونس ٹھونس کر ان کی آواز بند کر دیتا ہوں۔"      ( ١٩٣٥ء، دودھ کی قیمت، ١٥٤ )
٢٢ - آواز بند ہونا
آواز بند کرنا کا فعل لازم۔ قرآن پڑھتے پڑھتے جہاں سے گزر گئے آواز بند ہو گئی شبیر مر گئے      ( ١٩٢٩ء، مرثیہ فہیم (باقر علی خاں)، ١٣ )
٢٣ - آواز اٹھانا
[ ہئیت و نجوم  ]  گانے میں آواز کا بلند کرنا، اونچے سروں میں گانا۔ مہر نالوں سے مرے اس کے ترانے نہ بڑھے لاکھ گلزار میں بلبل نے اٹھائی آواز      ( ١٩٣٦ء، شعاع مہر، ٥٢ )
کسی شخص یا بات کے خلاف بولنا، احتجاج کرنا، پکار مچانا۔'گاءوں کے آدمی تکلیف پاتے مگر ان کے مرتبے کے سبب مخالفت میں آواز نہ اٹھاتے۔"      ( ١٩٣٠ء، اردو گلستان، ١٣٧ )
٢٤ - آواز اٹھنا
آواز اٹھانا کا فعل لازم ہے۔'پیانو کی اور پیانو کے ساتھ گانے والوں کی آوازیں اٹھ رہی تھیں۔"      ( ١٩٤٠ء، سجاد حیدر، حکایہ لیلٰی و مجنوں، ٣٢ )
آواز سنائی دینا، صدا بلند ہونا۔ اٹھی یکبارگی آواز واں سے نہایت آشنائی کی زباں سے      ( ١٨٢٨ء، مثنوی نل دمن، ٢٧ )
٢٥ - آواز اکھڑنا
[ ہئیت و نجوم  ]  تان لگانے یا اپچ لینے میں زور کھا کے آواز کا پھٹ جانا، آواز بے تال اور بے سری ہو جانا۔'آواز تو اچھی ہے مگر گاتے گاتے اکھڑی جاتی ہے۔"      ( ١٩٢٤ء، نوراللغات، ٢٠٦:١ )
٢٦ - آواز بھاری ہونا
آواز بیٹھ جانا، آواز میں بھرّاہٹ یا ایک قسم کی گرانی پیدا ہونا، آواز بیٹھ جانا۔'کیا پھپی صاحب ہیں? نرگس نے کہا، ہاں میں ہوں، خرم تمہارا کیا حال ہے? خرم کی آواز بھاری ہو گئی۔"      ( ١٩٢١ء، اولاد کی شادی، ١٠٥ )
٢٧ - آواز بَھرّانا
آواز کا ناہموار ہونا، بھاری بھاری اور پھیلا پھیلا سا ہونا۔ کان رکھ کر نہ سنی گل نے صدا اے بلبل چیختے چیختے بھرّا گئی آواز تری      ( ١٩٠٥ء، یادگار داغ، ١٧٩ )
٢٨ - آواز پتانا
آواز کا تھرتھرانا، آواز کانپنا۔'وہ کیا آئے گا ابھی بیماری سے اٹھا ہے ضعف سے آواز پتاتی ہے۔"      ( ١٩٢٤ء، نوراللغات، ٢٠٧:١ )
٢٩ - آواز پر کان (دھرنا | رکھنا | لگائے رہنا | لگائے ہونا)
آواز سننے کا منتظر رہنا، آواز سننے کی طرف متوجہ رہنا۔ (امیراللغات، ٢٩٣:١)
٣٠ - آواز پر کان لگے (رہنا | ہونا)
آواز پر کان لگائے رہنا کا فعل لازم ہے۔ کان آواز قدم پر جو لگے رہتے ہیں آنکھ دروازے کی جانب نگراں رہتی ہے      ( ١٨٣٦ء، ریاض البحر، ٢٥٢ )
  • sound
  • noise;  voice
  • tone;  whisper;  echo