تختہ بند

( تَخْتَہ بَنْد )
{ تَخ + تَہ + بَنْد }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'تختہ' کے ساتھ فارسی مصدر 'بستن' سے مشتق صیغہ امر 'بند' بطور لاحقہ فاعلی ملانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت مستعمل ہے۔ ١٨٧٢ء میں "مظہر عشق" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
جمع غیر ندائی   : تَخْتَہ بَنْدوں [تَخ + تَہ + بَن + دوں (و مجہول)]
١ - پٹ، بند (بازار، دکان وغیرہ)
 حسن محبوب الٰہی کی پڑی ہے جب سے دھوم تختہ بند اس دن سے اب تک مصر کا بازار ہے      ( ١٨٧٣ء، مظہر عشق، ١٨٢ )
٢ - محبوس، قیدی، مقید، (مجازاً) گرفتار بلا۔
"وہ اونٹ جس پر قطب الدین کو، تختہ بند، کیا تھا لایا گیا تو سلطان غوری نے طوق آہن کے بجائے موتیوں کے ہار گلے میں پہنائے۔"      ( ١٩٦٨ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ٣، ٦١٥ )
٣ - وہ لڑکی کا پتلا ٹکڑا اور پٹی جو ٹوٹے ہوئے عضو پر باندھتے ہیں۔ (نور اللغات؛ جامع اللغات)
٤ - حبس، گھٹن، قید، بندش۔ (نور اللغات)۔
٥ - [ اصطلاحا ]  جہاز یا کشتی سے نکلی ہوئی لکڑی کا بڑا ٹکڑا۔
"تیموریوں کے عہد میں گھوڑوں کے لیے جو سامان پیدا ہوئے اس کی یہ تفصیل ہے زین. تختہ بند۔"      ( ١٩١٤ء، شبلی، مقالات، ٢١٦:٦ )