محبوس

( مَحْبُوس )
{ مح + بُوس }
( عربی )

تفصیلات


حبس  حَبَس  مَحْبُوس

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم صفت ہے اردو میں بطور اسم نیز صفت مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٦٦٥ء کو "پھول بن" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر )
جمع استثنائی   : مَحْبُوسِین [مَح (فتحہ م مجہول) + بُو + سِین]
١ - قید کیا گیا، قیدی، اسیر، مقید، بند۔
"شادی کی سالگرہ پر وہ اپنی رفیقۂ حیات سے دور، جیل کی تیرہ و تار فضا میں محبوس ہیں۔"      ( ١٩٨٨ء، فیض شاعری اور سیاست، ١٧٦ )
٢ - مقید، اسیری کا پابند، قید میں بند۔
"جس شکنجے میں مصنف محبوس تھا وہ بھی تو لفظوں کا ہی بنا ہوا تھا۔"      ( ١٩٩٨ء، کہانی مجھے لکھتی ہے، ٢٧ )
٣ - [ طبیعیات ]  بند کیا ہوا، روکا ہوا، جذب کیا ہوا (گیس وغیرہ)۔
"کچھ تابکار مادوں میں محبوس ہیلیم ہوتی ہے جوکہ گرم کرنے سے نکل آتی ہے۔"      ( ١٩٧٥ء، غیر نامیاتی کیمیا، ٤٢٠ )