سپردگی

( سُپُرْدَگی )
{ سُپُر + دَگی }
( فارسی )

تفصیلات


سُپُرد  سُپُرْدَگی

فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'سپرد' کے ساتھ 'گی' بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٨٧٨ء سے "دلفروش" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - تحویل، حوالگی۔
"ایک پوری سل بکس سے نکلی اور خورشید مرزا کی سپردگی میں پہنچ گئی۔"    ( ١٩٢٤ء، اختری بیگم، ٢٦ )
٢ - سونپنا، تحویل میں دینا، حوالے کرنا۔
 یہی نہیں کہ ادھر ہی عجیب عالم ہے تڑپ رہے ہیں وہ خود بھی سپردگی کے لیے    ( ١٩٦٩ء، رنگ شفق، ٢٧ )
٣ - حراست، نظربندی، قید۔
"یہ گویا ہماری سپردگی کی باضابطہ رسم تھی۔"١٩٤٢ء، غبار خاطر، ٥٢
٤ - والہانہ پن، بے اختیاری، خود کو دوسرے کے حوالے کر دینے کا جذبہ۔
"ان کا کہنا ہے کہ برصغیر کیف و سرور اور سپردگی اور ربودگی کی دنیا میں رہتا ہے۔"      ( ١٩٧٧ء، نئی تنقید، ٢٤٣ )
  • charging
  • intrusting
  • consigning;  charge
  • consign ment
  • delivery
  • surrender;  commitment (by a magistrate)