فارسی زبان سے ماخوذ کلمہ ہے جو اردو میں اپنے ماخذ معانی و ساخت کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٧٣٢ء کو "کربل کتھا" میں مستعمل ملتا ہے۔
کَلّہ سے یہ کہتا تھا کہ افسوس افسوس وہ بانگِ جَرس کہاں کہاں نالۂ ناقوس
( ١٩٣٨ء، الخیام، ٣٤ )
٢ - جانور کی سری جسے لوگ پکار کر کھاتے ہیں۔
"اب کی دفعہ جو میں شکار ماروں گا تو تجھ کو بھی یاد رکھوں گا اور کَلّہ نیرے لیے علیحدہ رکھ چھوڑوں گا۔"
( ١٩٠١ء، جنگل میں منگل )
٣ - جبڑا، گال، رخسار۔
"کلہ: جبڑا یا رخسار۔"
( ١٩٧٤ء، اردو املا، ٧٠ )
٤ - گولہ۔
دلیری میں دل کے برابر جگر بھرتے توپ میں کلّۂ سیم و زر
( ١٨٤٠ء، معارج الفضائل، ١١ )
٥ - [ (مجازا) ] لیمپ اور لالٹین کا وہ پرزہ جس میں بتی لگاتے ہیں۔
"اگر لیمپ بری طرح جلتا ہے یا دھواں دیتا ہے تو اس کی عموماً کوئی نہ کوئی حسب ذیل وجہ ہوتی ہے . وہ آلہ جس میں سے تیل گزار کر اوپر آتا ہے اور کلہ بھرنے کے بعد اچھی طرح پونچھا نہیں جاتا۔"
( ١٩١٦ء، خانہ داری معیشت، ١٠٢ )