تفصیلات
غرق اِسْتَغْراق مُسْتَغْرَق
عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق 'صفت نیز اسم' ہے اردو میں بطور صفت اور اسم مستعمل ہے۔ ١٦٠٣ء کو "شرح تمہیدات ہمدانی" کے ترجمے میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - [ منطق ] وہ حد جو اطلاق کامل کے لیے استعمال کی جائے۔ (مفتاح المنطق، 363)
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
١ - ڈوبا ہوا، غرق شدہ؛ (مجازاً) حد درجہ محو، گم (کسی کام یا خیال وغیرہ میں)۔
"چونٹیاں بحرفکر میں مستغرق اپنے بلوں کو دانوں سے بھرتی ہیں۔"
( ١٩٩٦ء، آئندہ، کراچی، مئی تا جولائی، ٩١ )
٢ - [ قانون ] جائیداد، زمین وغیرہ جو کسی قرضے میں مکفول کر دی جائے۔
"اس طرح اضافہ ہوتے ہوتے مدیون کی کل جائیداد مستغرق ہو جاتی تھی۔"
( ١٩٣٢ء، سیرۃ النبیۖ، ٢٨٧:٤ )
٣ - [ فلسفہ ] عام، عمومی، کلی (مختص یا جزئی کی ضد)۔
"اس کا تعین ضروری ہے کہ حکم مستغرق ہے یا غیر مستغرق۔"
( ١٩٢٥ء، حکمتہ الاشراق، ٣٩ )