محو

( مَحْو )
{ مَحْو }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٥٨٢ء کو "کلمۃ الحقائق" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - مٹایا ہوا، چھیلا ہوا، کھرچا ہوا، دھویا ہوا، (حرف و نقش و غیرہ)۔
 اس لیے تا نہ ملے قافلے والوں کو پتہ محو کرتا ہوا نقشِ کف پا جاتا ہوں    ( ١٩٠٠ء، امیر مینائی، ذکر حبیب، ٢٣ )
٢ - مٹا ہوا، زائل، معدوم، ناپید۔
"اپنے ثقافتی فریم کے اندر رہ کر اس طرح اسے جذب کیا ہے کہ اپنی شناخت کا قرینہ محو نہیں ہونے دیا۔"    ( ١٩٩٧ء، اردو نامہ، لاہور، دسمبر، ١١ )
٣ - شیفتہ، فریفتہ، عاشق۔
 بچہ اک کلورا کا تھا دلربا اک پٹھان اس ماہ رو کا محو تھا      ( ١٨٦٧ء، رشک، دیوان (قلمی نسخہ)، ١٦٥ )
٤ - گم، کھویا ہوا، غائب، حیران، کسی خیال یا کسی خیال میں گم، مستغرق۔
"اختر اخبار پڑھنے میں ایسا محو تھے کہ ہماری چپکے چپکے باتیں کرنے پر توجہ نہ گئی، مگر میں فکر مند ہو گئی۔"      ( ١٩٩٤ء، افکار، کراچی، فروری، ٢٧ )
٥ - [ تصوف ]  نابود ہونے اور عادات واوصاف بشری کے زائل کرنے کو اور اپنے افعال حق میں فنا کر دینے کو کہتے ہیں۔ (مصباح التعرف)۔