مستعیر

( مُسْتَعِیر )
{ مُس + تَعِیر }
( عربی )

تفصیلات


عور  مُسْتَعار  مُسْتَعِیر

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق 'صفت نیز اسم' ہے۔ اردو میں بطور صفت اور اسم مستعمل ہے۔ ١٨٦٧ء کو "نور الہدایہ" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - [ کتب خانہ ]  وہ شخص جسے ایک معینہ مدت کے لیے لائبریری سے کتابیں مستعار دی جائیں۔ (نظام کتب خانہ)
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
١ - ادھار پر لینے والا، کرایہ پر مانگنے والا، عاریتہً حاصل کرنے والا۔
"ان دونوں صورتوں میں. مستعیر یعنی کرایے پر لینے والا اور استعمال کے لیے مانگنے والا اس کو فنا نہیں کرسکتا۔"      ( ١٩٧٦ء، جنگ، کراچی، ٢٤ مئی، ٣ )
٢ - عاریتہً لیا ہوا، مانگا ہوا؛ چند روزہ، عارضی غیر مستقل۔
"انہیں مستعیر محکمے یعنی صدارتی سیکڑیٹ (عوامی) میں ترقی کا کوئی حق نہیں ہوگا۔"      ( ١٩٨٧ء، سرکاری خط و کتابت، دفتری حکم نامے، ٩٦:٣ )
٣ - وہ جو استعاروں میں بات کرے۔ (اسٹین گاس)