سرسبز

( سَرسَبْز )
{ سَر + سَبْز }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'سر' کے ساتھ فارسی ہی سے ماخوذ اسم صفت 'سبز' لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٧٠٧ء سے "کلیات ولی" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - ہرا بھرا، ترو تازہ، شاداب۔
"اب مقابلتاً کراچی ایک سرسبز شہر ہے۔"      ( ١٩٨٤ء، مقاصد و مسائل پاکستان، ٣٥ )
٢ - بارآور، کامیاب، مقبول مشہور۔
"بے بنیاد غلط بیانیاں کبھی سرسبز نہیں ہو سکتیں۔"      ( ١٩٣٢ء، اودھ پنچ، لکھنؤ، ١٧، ٤:٧ )
٣ - خوش و خرم، خوشحال، فارغ البال۔
 میں کس زباں سے شکر شہادت ادا کروں سر سبز تم رہو کہ کیا سرخرو مجھے      ( ١٩١٥ء، جان سخن، ١٩٨ )
٤ - بھرا پرا، آباد، ترقی پذیر۔
"کالج کے سرسبز ہونے کی تمنا ظاہر ہوئی۔"      ( ١٩٣٨ء، حالات سرسید، ٤٩ )
٥ - فتحمند، غالب (عموماً مقابلے میں)۔
 اس قدر کے آگے ہو گا نہ سر سبز وہ کبھی کیا بڑھ گئی ہے باغ میں سرو و سمن کی حرص      ( ١٩٦١ء، کلیات اختر، ٤٢٠ )