تعہد

( تَعَہُّد )
{ تَہَہ + ہُد }
( عربی )

تفصیلات


عہد  عَہْد  تَعَہُّد

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں اصل معنی اور حالت میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٧٩٤ء میں "جنگ نامہ دو جوڑا" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - عہد، ذمہ داری۔
"اس تعہد سے حقوق اور درجہ بندی کی حفاظت بوجہ احسن کی جاتی ہے۔"      ( ١٩٠٨ء، اساس الاخلاق، ٤٣٠ )
٢ - ٹھیکا، اجارہ۔
"سرکار عالی میں اس کا انتظام تعہد (ٹھیکہ) کے طور پر کیا جاتا ہے۔"      ( ١٩٣٤ء، حیات محسن، ١٢ )
٣ - [ فقہ ]  اقرار نامہ، عہد نامہ، پابندی۔
"قیام کو نماز میں خوب ادا کرلے اور تعہد اس کا یاد رکھے۔"      ( ١٨٤٥ء، احوال الانبیا، ١٨:٢ )
٤ - وعدہ، قول و قرار۔
"جب یہ بات سنی جھنجھلا کر کہنے لگے کہ وہ تعہد عالم بیچارگی و واماندگی میں تھا۔"      ( ١٨٥٥ء، غزوات حیدری، ٢٢٠ )
٥ - عقد (اردو قانونی ڈکشنری)۔
٦ - معاہدہ
 تعہد کرآؤں نئے ملک کا پھراؤں تجھے ملک میں جا بجا      ( ١٧٩٤ء، جنگ نامہ دو جوڑا، ١٥ )