تغلب

( تَغَلُّب )
{ تَغَل + لُب }
( عربی )

تفصیلات


غلب  غالِب  تَغَلُّب

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں اصل معنی اور حالت میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٨٣٨ء میں "بستان حکمت" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - غلبہ، تسلط، مغلوب کرنا۔
 کیا تجھ کو یہ تغلب کرتا نہیں کفایت دنیا غلام میری، میں ہوں غلام تیرا      ( ١٩٦٥ء، کف دریا، ٨٥ )
٢ - غبن، خیانت۔
"جب کسی دفتر یا خزانے کی رقم میں تغلب ہو تو افسر متعلقہ کا فرض ہے کہ اس کی اطلاع . صدر دفتری محاسبی کو کر دے۔"      ( ١٩٠١ء، ارکان اربعہ، ٥٠:٢ )
٣ - تصرف، تصرف بے جا۔
"ان کے اوقات مذہبی میں اس عیسائی گورنمنٹ نے ذرا تغلب اور تصرف نہیں کیا تھا۔"      ( ١٩٢٨ء، مضامین حیرت، ٢٠٨ )
٤ - رشوت
"وعدہ خلافی . رشوت یعنی تغلب کرنا . مبالغہ . اس زمانے میں بالکل عیب نہیں رہا۔"      ( ١٨٧٤ء، مجالس النسا، ١٤ )
٥ - غلبہ حاصل کرنا، برتری پانا۔
"ازبسکہ حرب تغلب بھی آئندہ تحفظ کے لیے کی جاتی تھی۔"      ( ١٩٠٧ء، امہات الامہ، ٩٣ )