تبرید

( تَبْرِید )
{ تَب + رِید }
( عربی )

تفصیلات


برد  بارِد  تَبْرِید

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے اردو میں اصل معنی اور حالت میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٧٣٩ء میں "کلیات سراج" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - وہ ٹھنڈائی (سرد شربت یا دوا) جو موسم گرما کی حدت دور کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں نیز مسہل کے اول تین دن پیتے ہیں اور مسہل ہو جانے کے بعد اس کی حرارت رفع کرنے اور دل کو قوت پہنچانے کے لیے مریض کو استعمال کراتے ہیں۔
 اس قدر سرد مزاج اور پھر اس پر تبرید خوف یہ ہے کہ پہنچ جائے نہ فالج کا اثر      ( ١٩١٤ء، کلیات شبلی، ٧٦ )
٢ - ٹھنڈک، سرد کرنے یا ہونے کا عمل۔
"تبرید کے دوران میں دھاتیں علیحدہ ہو جاتی ہیں۔"      ( ١٩١٤ء، فلزیات، ٥٧٢ )
٣ - [ مجازا ]  خوش کرنے یا فرحت پہنچانے کا عمل۔
 پلاوے توجہ کی تبرید اسے چکھاوے سدا شربت دید اسے      ( ١٧٣٩ء، کلیات سراج، ٧٥ )