دغا باز

( دَغا باز )
{ دَغا + باز }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'دغا' کے بعد مصدر 'باختن' سے مشتق صیغہ امر 'باز' بطور لاحقۂ فاعلی لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٦٩٠ء سے "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : دَغا بازوں [دَغا + با + زوں (و مجہول)]
١ - مل کر فریب دینے والا، مکار، جعل ساز، فریبی، غدار۔
"جھوٹے دغا باز مجھے بھی بوٹنگ کے بارے میں سب کچھ پتہ ہے۔"      ( ١٩٨٢ء، میرے لوگ زندہ رہیں گے، ١٤٤ )
٢ - (مراد) شیطان، ورغلانے والا۔
"خدا کے بارے میں تم کو (شیطان) دغا باز دغا دیتا رہا۔"      ( ١٩٠٠ء، ترجمہ قرآن مجید، فتح محمد جالندھری، ٥٣٤ )