آدمیت

( آدْمِیَّت )
{ آد + می + یَت }
( عبرانی )

تفصیلات


اَدمہ  آدْمی  آدْمِیَّت

عبرانی زبان کے اصل لفظ 'ادمہ' سے ماخوذ اسم 'آدم' کے ساتھ عربی قواعد کے مطابق پہلے 'یائے مشدد' بطور لاحقۂ نسبت اور پھرْت، بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے 'آدمیت' بنا۔ اردو میں اسم مؤنث مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٦٠٩ء میں "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث )
١ - مروت، حسن خلق، ملنساری، تہذیب، سلیقہ۔
 ہے ناز اپنی تہذیب پر جن کو اتنا نہیں آدمیت گئی ان کو چھو بھی      ( ١٩٣١ء، بہارستان، ظفر علی خان، ٨٥ )
٢ - آدمی ہونے کی حالت، انسانی فطرت۔
 اگر غایت یہی تھی ہستی انساں کی فطرت سے تو باز آیا میں ایسی زیست ایسی آدمیت سے      ( ١٩٢٦ء، روح رواں، ١٣٠ )
٣ - بلوغ، شباب۔
 آدمیت میں قدم رکھتا ہے بچپن ان کا اپنے سایے سے جھجکتے ہیں پریرو ہو کر    ( ١٨٩٥ء، دیوان راسخ دہلوی، ١٠٧ )
٤ - عقل و شعور
 آدمیت اور شے ہے علم ہے کچھ اور شے کتنا طوطے کو پڑھایا پر وہ حیوان ہی رہا    ( ١٨٥٤ء، ذوق، دیوان، ٤٨ )
  • اِنْسانِیَّت
  • حَیْوانِیَّت
١ - آدمیت اٹھ جانا
شرافت مروت اخلاق اور انسانیت کا مفقود ہو جانا، (لوگوں کا) لوگوں کا بے تمیز ہو جانا۔ (ماخوذ : امیراللغات، ٨٠:١، نوراللغات ٨٤:١)
٢ - آدمیت آنا
صفات انسانی حاصل ہونا۔ عشق سے آدمِیَّت آتی ہے آدمی کو مروت آتی ہے      ( ١٨٨٢ء، فریاد داغ، ٩٥ )
٣ - آدمیت پکڑنا
اخلاق حاصل کرنا، شرافت اور تہذیب کا برتاءو کرنا۔ (ماخوذ : امیراللغات، ٨٠:١)
٤ - آدمیت سے گزر جانا
انسانیت شرافت اور تہذیب و اخلاق کی باتیں چھوڑ دینا۔"تم تو اس شفتل کے پیچھے آدمیت سے گزر گئے ہو۔"      ( ١٩٢٤ء، نوراللغات، ٨٤:١ )
٥ - آدمیت کے جامے میں آنا
غصے وغیرہ کو ترک کرنا۔"پہلے تو غصے سے بھوت بنے ہوئے تھے سمجھانے بجھانے سے آدمیت کے جامے میں آ گئے۔"      ( ١٨٩١ء، امیراللغات، ٨٠:١ )