باہر

( باہَر )
{ با + ہَر }
( سنسکرت )

تفصیلات


وہس  باہَر

سنسکرت میں اصل لفظ 'وہس' ہے اس سے ماخوذ اردو زبان میں 'باہر' مستعمل ہے۔ اردو میں بطور اسم ظرف مکان اور گاہے بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ ١٥٠٠ء میں "معراج العاشقین" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم ظرف مکان ( مذکر - واحد )
١ - اندر کی ضد، عموماً حسب ذیل معنی میں مستعمل : مقرر یا محدود مقام شے وغیرہ سے خارج۔
"رام پور اور باہر کے اکثر طلبا کو پڑھایا۔"    ( ١٩٢٩ء، تذکرۂ کاملان رام پور، ٣٩٣ )
٢ - صحن میں، کھلے ہوئے میدان میں۔
 گل کو کیا رتبہ ہے نازک بدنی سے اس کی جو کبھی اوس میں بیٹھے نہ گھڑی بھر باہر    ( ١٩٠٥ء، یادگار داغ، ٢٣ )
٣ - گھر کے مردانہ حصے میں۔
"بادشاہ محل میں سکھ فرماتے ہیں - باہر قصہ خواں بیٹھا داستان کہہ رہا ہے۔"    ( ١٩١٦ء، بزم آخر، ٩ )
٤ - بیرون خانہ، گھر کی چار دیواری سے خارج۔
 آج کیا ہے جو نکلوائے گئے گھر سے رقیب اور دربانوں سے پھنکوا دیے بستر باہر    ( ١٩٠٥ء، یادگار داغ، ٢٤ )
٥ - خارج میں، ظاہر میں (جہاں سے نظر آئے)۔
 ہر برگ حنا جلوہ گہ شان غنی ہے اندر جو حسینی ہے تو باہر حسنی ہے      ( ١٩١٢ء، شمیم، مرثیہ، ٧ )
٦ - پردیس میں، سفر میں۔
 بے وفا سارے حسینان وطن ہیں اے داغ آزمائیں گے کہیں اپنا مقدر باہر      ( ١٩٠٥ء، یادگار داغ، ٢٤ )
صفت ذاتی ( مذکر )
١ - بالاتر، بڑھا ہوا، دسترس سے دور۔
"اس منطقی فقرے کا جواب دینا ہماری عقل سے باہر تھا۔"      ( ١٩٤٧ء، فرحت اللہ بیگ، مضامین، ١٤٠:٤ )
٢ - منحرف، بے تعلق، انکاری، پیچھے ہٹنے والا (کسی کام سے جس کے لیے کہا جائے)
"کیا تم نے فرنگی محل میں یہی پڑھا ہے کہ ماں کو یوں گستاخی سے جواب دو اور ان کے حکم سے باہر ہو جاؤ۔"      ( ١٩٢٣ء، طاہرہ، شرر، ٢٣ )
٣ - جو کسی مفہوم یا اس کے مصداق سے خارج ہو، الگ، جدا، مختلف۔
"اس برس سے مدرسے کے باہر حساب وغیرہ بھی سیکھنا شروع کر دیا۔"      ( ١٩٢٤ء، نوراللغات، ٥٥٧:١ )
٤ - زائد، کچھ اوپر۔
"جو مناسب ہو ان سے کہہ کے روپیہ لے آئیں - میں سمجھتا ہوں کوئی باہر دو ہزار میں کام نکل جائے گا۔"      ( ١٩١٥ء، سجاد حسین، طرحدار لونڈی، ١٥٥ )