ابتلا

( اِبْتِلا )
{ اِب + تِلا }
( عربی )

تفصیلات


بلو  اِبْتِلا

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب افتعال سے مصدر ہے اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ عربی میں اصل لفظ 'ابتلاء' ہے۔ اردو میں 'ء' کی آواز نہ آنے کی وجہ سے 'ابتلا' لکھا جاتا ہے۔ ١٧٩٥ء کو قائم کے مجموعے "مختار اشعار" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم حاصل مصدر ( مؤنث - واحد )
جمع   : اِبْتِلائیں [اِب + تِلا + ایں (ی مجہول)]
١ - آزمائش، امتحان، جانچ۔
 جو ہر ترے جہاں پہ کھلے ابتلا کے بعد تھا تجکو انتظار بلا ہر بلا کے بعد      ( ١٩٤٠ء، بیخود (موہانی)، کلیات، ٤٧ )
٢ - بلا، مصیبت، افتاد۔
"ہم . اس ابتلا و مصیبت میں بشاش چلے جا رہے ہیں"۔      ( ١٩٤٠ء، مضامین رشید، ٢٤٦ )
٣ - کسی ناخوشگوار حالت میں پھنسنا، مبتلا یا گرفتار ہونا۔
"کیا میں نہیں جانتا کہ آپ کو کن کن افکار میں ابتلا ہے"۔      ( ١٨٩١ء، فغان بے خبر، ٨٣ )
٤ - [ حفظان صحت ]  جسم انسانی میں جراثیم اور کیڑوں کی موجودگی۔(مبادی صحیات، 161)
  • trial
  • suffering
  • affliction
  • misfortune