بانکا

( بانْکا )
{ باں + کا }
( سنسکرت )

تفصیلات


ورک  بانْکا

سنسکرت میں اصل لفظ 'ورک' ہے اس سے ماخوذ اردو زبان میں 'بانکا' مستعمل ہے اور بطور اسم اور گاہے بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ ١٧٠٧ء میں ولی کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : بانْکے [باں + کے]
جمع   : بانْکے [باں + کے]
جمع غیر ندائی   : بانْکوں [باں + کوں (واؤ مجہول)]
١ - بانک کے فن میں مہارت رکھنے والا، بنکیت۔
 جس پرے میں مہ نو تیغ کا تاکے جھانکے پھینک کر اپنی کٹاروں کو ہوا ہوں بانکے      ( ١٩٧٥ء، رواں واسطی، مرثیہ، ١٥ )
٢ - سر پر باندھنو والی ترچھی ٹوپی اور کمر میں پیش قبض رکھنے والا نوجوان (جو برصغیر کے دور شاہی میں اور اس کے کچھ بعد تک ہوتا تھا بات بات پر بپھرنا، کمزوروں کی مدد کرنا، قوت کے دعویداروں سے مقابلہ بلکہ مجادلہ اس کا شعار تھا)۔
"آگے ایک قزلباش ہے تو پیچھے دس بانکے اور بیس شہدے۔"      ( ١٩٣٣ء، مغل اور اردو، ٧٠ )
٣ - معشوق۔ (فرہنگ آصفیہ، 360:1؛ نوراللغات، 554:1)
 تیر سے دل کو لگاوٹ ہے کہ اس کا پیکاں ہے نکیلا مرے بانکے کی نظر ہی کا سا      ( ١٩٢٥ء، شوق قدوائی، دیوان، ٧ )
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : بانْکے [باں + کے]
جمع   : بانْکے [باں + کے]
جمع غیر ندائی   : بانْکوں [باں + کوں (واؤ مجہول)]
١ - جھکا ہوا، خمدار، ٹیڑھا، ترچھا۔
 ہو گیا اک ترک کی ترچھی نگاہوں کا شکار میں خدا کے گھر سے لایا ہوں عجب بانکا نصیب      ( ١٩٣٥ء، ناز، کلیات ناز، ٦١ )
٢ - بہادر، دلیر، سپاہی (بیشتر جوان وغیرہ کے ساتھ مستعمل)۔
"یہ بانکا جوان فوجی وردی سے آراستہ کمر میں کرچ لگائے - گھر میں داخل ہوا۔"      ( ١٩٢١ء، لڑائی کا گھر، ٧ )
٣ - طرحدار، وضعدار۔
 بانکوں کے بانکپن کو ملاؤ نہ خاک میں تن تن کے یوں نہ اپنا بدن دیکھتے چلو      ( ١٨٧٢ء، دیوان قلق، مظہر عشق، ١٢٢ )
٤ - معشوقانہ انداز رکھنے والا، رنگیلا، رسیلا، چھبیلا، شوخ، طراز۔
 اک طرف پھول کنول کا وہ سجیلا بانکا مسکراتا ہے کھڑا غنچہ دہن پانی میں      ( ١٩٣٧ء، نغمۂ فردوس، ١١٦:١ )