بایاں

( بایاں )
{ با + یاں }
( سنسکرت )

تفصیلات


وامک  بایاں

سنسکرت میں اصل لفظ 'وامک' ہے اردو میں اس سے ماخوذ 'بایاں' مستعمل ہے اور بطور اسم صفت اور گاہے بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٨٤٠ء میں "چمنستان" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جمع   : بائِیں [با + اِیں (ی مجہول)]
١ - دایاں کی ضد، الٹا، چپ۔
 بایاں وہ ایک ہاتھ، وہ لاکھوں سے کارزار تیغ دو دم چلائیں کہ روکیں عدو کے وار      ( ١٩١٢ء، شمیم، مرثیہ، ١٤ )
اسم معرفہ ( مذکر - واحد )
جمع   : بائِیں [با + اِیں (ی مجہول)]
١ - فوج کا بایاں حصہ، میسرہ، میمنہ کی ضد۔
"جس وقت دونوں لشکر صفیں باندھ کر میدان میں جمے تو آئین جنگ کے بموجب امرائے شاہی آگا پیچھا دایاں بایاں سنبھال کر کھڑے ہوئے۔"      ( ١٨٨٣ء، دربار اکبری، ١٨ )
٢ - [ موسیقی ]  جوڑی کا وہ طبلہ جو بائیں ہاتھ پر رہتا ہے اور جس سے گمک پیدا کی جاتی ہے۔
"اس کے بعد بایاں مانگ کر اپنے ہاتھ سے بجانے لگے۔"      ( ١٩١٤ء، محل خانہ شاہی، ٧٩ )
١ - بائیں آنکھ پھڑکنا
خودبخود بائیں آنکھ کے پپوٹے کا مسلسل حرکت کرنا (جو بنابر شہرت مرد کے لیے شگون بد اور عورت کے لیے بالعکس ہے) الٰہی اپنی بغل میں میں دیکھوں آج اسے بہ بائیں آنکھ پھڑکنی ہو نیک فال مجھے      ( ١٨٣٦ء، ریاض البحر، ٢٥٨۔ )
٢ - بائیں ہاتھ سے دینا
مجبور ہو کر دینا، تعدی سے ڈر کر دینا، اس موقع پر بولتے ہیں جب کسی سے کوئی چیز حکماً یا زبردستی واپس طلب کی جائے (دینا یا اس کے مترادفات کے ساتھ)۔"وہ سات پٹے. جو محمود شاہ بہمنی نے سلطان قلی کو دیے تھے انہیں بائیں ہاتھ سے عنایت کیجیے"      ( ١٨٩٧ء، تاریخ ہندوستان، ٦٨٣:٤ )