تازیانہ

( تازِیانَہ )
{ تا + زِیا + نَہ }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے اسم جامد ہے۔ اردو میں فارسی سے آیا۔ سب سے پہلے ١٨٧٨ء کو "گلزار داغ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم آلہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : تازِیانے [تا + زِیا + نے]
جمع   : تازِیانے [تا + زِیا + نے]
جمع غیر ندائی   : تازِیانوں [تا + زِیا + نوں (و مجہول)]
١ - چابک، ہنٹر، قمچی، کوڑا؛ تنبیہہ۔
"سبق یاد نہ کرنے یا شرارت کرنے پر بجائے سزائے تازیانہ کے سزائے جرمانہ دی جاتی۔"      ( ١٩٤٧ء، فرحت، مضامین، ١٩٣:٣ )
٢ - وہ بید جس سے ملزموں کو سزا دی جائے۔
 کچھ سہم کے نہیب سے تھرائے مثل بید لچکے جو مدعی پہ ترا تازیانہ آج      ( ١٨٧٨ء، گلزار داغ، )