آرائش

( آرائِش )
{ آ + را + اِش }
( فارسی )

تفصیلات


آراستن  آرائِش

یہ لفظ فارسی زبان کے مصدر 'آراستن' سے مشتق ہے اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٥٠٠ء میں "معراج العاشقین" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم حاصل مصدر ( مؤنث - واحد )
جمع   : آرائِشیں [آ + را + اِشیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : آرائِشوں [آ + را + اِشوں (و مجہول)]
١ - سجاوٹ، زیبائش، آراستگی، بناؤ سنگھار۔
"شاہی خواب گاہ کی آرائش کا کیا کہنا، چپہ چپہ بہشت کا نمونہ تھا۔"    ( ١٩١٣ء، انتخابِ توحید، ٦١ )
٢ - سجاوٹ اور چراغاں وغیرہ کا سامان۔
 شب مظلم میں بہر زیبائش دل کے داغوں کی سب تھی آرائش    ( ١٩٤٨ء، ہلال (نسیم حسن)، مثنوی شام غریباں، ٤ )
٣ - کاغذ، پنی اور ابرک کی ٹٹیاں درخت تخت اور پھل پھول وغیرہ (جنھیں گملوں میں سجاتے اور تخت پر رکھ کر جلوس، برات یا ساچق میں زیبائش کے لیے لے جاتے ہیں)،سوگی، باغ بہاری، باگ باڑی۔
"ان کے تعزیے میں کوئی ندرت تو نہ ہوتی، آرائش والوں سے بنوا لیتے معمولی کھپچیوں اور پنی کا۔"      ( ١٩٤٣ء، دلی کی چند عجیب ہستیاں، ٦٩ )
٤ - ترتیب، تنظیم کار۔
 کمال ہی سے ہے دنیا میں گرم بازاری متاع شرط ہے آرائش دکاں کے لیے      ( ١٩٢٠ء، دیوان صفی، ١٣٨ )
١ - آرائش دینا
سجانا، آراستہ کرنا۔ دے کے آرائش اس کو سرتاپا ایک جلوہ دکھایا قدرت کا      ( ١٨٤١ء، زینت الخیل، ٢ )
  • Preparation;  dressing;  ornament
  • decoration
  • embellishment